Featured Post

قرآن آخری کتاب Quran : The Last Book

Don't Discard Quran: Quran is the Only Last, Complete, Protected Divine Book of Guidance, without any doubt, all other books are h...

18.8.13

Islamic Revival اسلام کی تجدید

Unlike the earlier tradition of Islamic philosophy from al-Farabi to Averroës, which had consciously cultivated political science and investigated the political dimension of philosophy and religion and the relation between philosophy and the community at large, the new approach from its inception lacked genuine interest in these questions, had no appreciation for political philosophy, and had only a benign toleration for the affairs of the world. No worthwhile political philosopher or reformer came up with solution to real problems confronted by Islamic world. The divine guidance in the form of Qur’an and Sunnah of Prophet (peace be upon him) was available so that: “they may ponder its revelations, and that men of understanding may learn lessons from it.”(Qur’an;38:29). But the ‘men of understanding’ were rare.  Centuries have passed but Muslims have failed to correct the historic mistake, to set the priorities right. The result is frustration, extremism, disunity, loss of dignity, self esteem, poverty, deprivation, illiteracy, oppression, economic and political domination by West and others economic giants. Keep reading <<<Islamic Thought & Revivalists>>>
آج کل لوگوں کی زبانوں سے اسلام کی تجدید کی ضرورت کی بات بہت سننے کو ملتی ہے لیکن دین کی تجدید کا مطلب اس میں پیوند کاری نہیں ہے، نہ ایمان کے کسی شعبہ کو نظرانداز کرکے جدید تہذیب کے ساتھ قدم بقدم چلنا ہے۔

اسلامی تجدید کا مفہوم ایک ہی ہو سکتا ہے کہ ماحول، عام جہالت، ذاتی خواہشات اور حکمرانوں کے انحرافات وغیرہ کی وجہ سے اس پر جوگرد پڑ گئی ہو، اسے صاف شفاف کر دیا جائے جیسے پانی کو صاف کرکے پینے کیلئے تیار کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ اس علم کو ہرنسل کے مستند لوگ اٹھائیں گے جو اس سے غلوپسندوں کی تحریف، باطل پسندوں کی ایجادات اور جاہلوں کی تاویلات دور کریں گے۔ ان مختصر الفاظ میں رسول اللہ ﷺ نے ساری بات سمیٹ لی ہے۔ قدیم زمانے میں غلو پسند لوگ زندگی سے نفرت کرتے تھے، شادی نہیں کرتے تھے، ہمیشہ روزے رکھتے تھے اور رات رات بھر جاگ کر نمازیں پڑھتے رہتے تھے لیکن اسلام نے انہیں اعتدال اور غلو سے کنارہ کشی کرنا سکھایا۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ قرآن کی بعض سورتوں کے فضائل میں کچھ لوگوں نے حدیثیں گھڑیں جب ان سے کہا گیا کہ یہ کیا کر رہے ہو جبکہ رسول اللہ ﷺ فرما چکے ہیں کہ جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانا جہنم بنالے تو کہنے لگے ہم تو آپؐ کیلئے جھوٹ بول رہے ہیں آپؐ کے خلاف نہیں۔ یہ باطل پسندوں کی ایجاد کی مثال ہے۔ 

یہی صورت دین میں ہر بدعت کی ہے۔ لوگوں نے گھٹیا روایات کو رواج دیکر امت کو ٹھپ کرکے رکھ دیا ہے جبکہ دنیا تیز آندھی کی طرح آگے کی طرف دوڑ رہی ہے۔ رہیں جاہلوں کی تاویلیں تو ہمارے دور نزدیک کی تاریخ میں اس کی کتنی مثالیں ملتی ہیں۔ کچھ دنوں پہلے جزیرہ عرب کے کسی احمق کی کتاب دیکھنے کوملی جس میں اس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس کی چالیس سے زیادہ دلیلیں ہیں کہ زمین اپنی جگہ ٹھہری ہوئی ہے اور سورج اس کے اردگرد گردش کر رہا ہے میں نے پڑھا تو معلوم تو معلوم ہوا چالیس سے زیادہ قرآنی آیات کی اوٹ پٹانگ تفسیر کی گئی تھی تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ اسلام اور سائنس ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اس طرح کی حرکتیں کبھی نادانی کی بنا پر سرزد ہوتی ہیں کبھی کچھ مفاد پرست لوگ کسی ملت دشمن کے زرخرید آلہ کاربن کرکرتے ہیں۔ تجدید اسلام کا مطلب ہے آسمان سے نازل ہونے والے اصل دین کی طرف لوٹنا۔ اچھا نمونہ اور اعلیٰ مثال تو حضرت محمدؐ اور آپؐ کے صحابہؓ کی سیرت ہی سے لی جا سکتی ہے کیونکہ وہی صحیح اسلام کی نمائندگی کرتے ہیں اور وہی اتباع کے لائق ہیں۔ بعد میں زمانہ گزرنے کے ساتھ انحراف پیدا ہوتا گیا اگر کوئی پچھلی صدی یا اس سے پہلے کی صدی کو نمونہ بنانا چاہے تو صرف کجی تک پہنچے گا کیونکہ انہیں صدیوں کے انحرافات نے ہمیں دنیا میں سب سے پیچھے دھکیل دیا ہے۔ آج انفرادی حکومتوں کی جن برائیوں سے ہم دوچار ہیں وہ کئی صدیوں سے ہمارا پیچھا کر رہی ہیں۔ ہم جس طرز عمل سے روشنی حاصل کر سکتے ہیں وہ حضور رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدینؓ کے دور کا شورائی نظام ہے، جب حکمران غرور و تکبر سے دور رہتا تھا، حق کے سامنے جھکتا تھا، اہل علم سے مشورہ کرتا تھا اور اپنے آپ کو امت کا خادم سمجھتا تھا۔ جو اپنی مقررہ تنخواہ سے زیادہ نہیں لے سکتا تھا۔ جسے بلاتکلف ٹوک دیا جاتا تھا کہ خداسے ڈرو، جو اپنے خاندان کو عوام کا حصہ سمجھتا تھا، اگر غلطی کرتا تھا تو اپنے آپ کو سزا دیتا تھا جیسا کہ حضرت عمرؓ نے بڑے افسران سے کہا تھا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے کہ خود سے بدلہ دلایا کرتے تھے۔ نظام حکومت کی یہی روایات مالی معاملات، عدالتی نظام اور اجتماعی معاملات میں بھی جاری تھیں بلکہ عبادتی امور میں بھی۔ پھرمسلمان دھیرے دھیرے اس راستے سے دور ہوتے گئے یہاں تک کہ ان کا شمار دنیا میں سب سے پیچھے یعنی تیسری دنیا میں ہونے لگا۔ کیونکہ انہوں نے اپنے نبیؐ کی سنت اور اپنے بزرگوں کی روایات کو بھلا دیا اور دین کی صحیح سمجھ سے دور ہوگئے۔ زمانہ اور حالات کے ساتھ وسائل بھی بدل جاتے ہیں۔ شوریٰ حق ہے اور پہلے اس پر عمل بہت آسان تھا۔ جو لوگ موجود ہوتے تھے ان سے رائے لے لی جاتی تھی۔ لیکن اب اس کیلئے ایک مرتبہ اور منظم نظام چاہیے۔ اب جو لوگ فکر اسلامی کی تجدیدکرنا چاہتے ہیں انہیں ان وسائل پر غور کرنا ہوگا اور وہ صورت اختیار کرنی ہوگی جس سے مقصد حاصل ہو اور اسلام کے محاسن اجاگر ہوں۔ ادھرادھر سے استفادہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ عالم اسلام میں کتنے ہی المناک واقعات رونما ہو چکے ہیں جن کے خلاف ساری دنیا کی راجدھانیوں میں مظاہرے ہوئے لیکن کسی عرب راجدھانی میں کوئی مظاہرہ نہیں ہوا۔ کیوں ؟ اس لئے کہ ظالمانہ نظام ہائے حکومت کے تحت لوگ اتنے دبائے ہوئے ہیںکہ بول بھی نہیں سکتے ، وہ جانتے ہیں کہ اگر وہ سڑکوں پر نکلے تو گولیوں سے بھون ڈالے جائیں گے۔ ان کی حکومتیں نہیں چاہتی ہیں کہ ان میں اتنی جرأت پیدا ہو۔ اگر آج وہ کسی بیرونی واقعہ کے خلاف احتجاج کیلئے نکلتے ہیں تو کل انہی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اس لئے پہلے ہی سے دروازہ بند رکھنا چاہیے۔ آپ نے دیکھا انفرادی آمرانہ نظام کے رواج اور شورائیت کے فقدان نے معاملہ کہاں تک پہنچا دیا۔ ساری دنیا میں کرپشن کی روک تھام کے انتظامات ہیں۔ اسلامی خصوصاً عرب ممالک میں چند لوگوں کے ہاتھوں میں بے حساب دولت سمٹی ہوئی ہے اور بغیر محنت کی کمائی ہے۔ کیا اس کجی کا اسلام سے کوئی تعلق ہے؟ ہمارے دین نے تو سب سے پہلے بدعنوانی کے خلاف اعلان جنگ کیا تھا پھر ہم نے اس سے بچنے بچانے کیلئے کیا انتظامات کیے؟ کچھ لوگوں نے کبھی کبھی وعظ و تلقین سے کام لے لیا، باقی نے خاموشی ہی میں عافیت سمجھی۔ ہم میں چھوٹی چھوٹی چیزوں پر بھڑکنے والے بہت ہیں، بڑی باتوں پر توجہ دینے والا کوئی نہیں۔ خدا کے علاوہ کسی دوسرے نام پر قسم کھانا تو شرک بتایا جاتا ہے لیکن یہ نہیں بتایاجاتا کہ ریاکاری بھی گناہ ہے اور ظالموں کی خوشامد تو کفر تک پہنچ سکتی ہے۔ اب اگر ہمارے پاس مرض کے علاج کیلئے دوائیں نہیں اور دوسروں سے دوائیں لیں تو لوگ ہم پر الزام لگانے لگتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اسلام کی ترجمانی کے دعویدار بیشتر ناسمجھ ہیں اور وہ اسلام کو زندہ کرنے کے بجائے موت سے ہمکنار کر رہے ہیں۔ ہر میدان میں خود کفالت ناگزیر ہے ۔ بغیر اس کے کوئی قوم کامیاب نہیں ہوسکتی۔ دینی فکر کی تجدید کیلئے پختہ عقل اور پاک دلی درکار ہے۔ وہ تاریخ کی غلطیوں اور کوتاہیوں پر گہری نظر چاہتی ہے۔ وہ کتاب و سنت میں گہری مہارت چاہتی ہے۔ وہ گندی اور پست ذہنیت اور روایت پرستی کی بجائے صائب نظر، بلند خیالی، پاکیزہ ذہنیت اور گہری بصیرت چاہتی ہے۔
http://mag.dunya.com.pk/index.php/deen-o-dunya/711/2013-08-18
Related: