
God of Christians and Muslims
SalaamOne.Com
Peace Forum Network Mags
Books, Articles, Blogs, Magazines, Videos, Social Media
Millions of visits/hits
Don't Discard Quran: Quran is the Only Last, Complete, Protected Divine Book of Guidance, without any doubt, all other books are h...
مذاہبِ باطلہ کے ساتھ تَشَبُّہ
مفتی منیب الرزحمان
سب سے پہلے چند احادیثِ مبارَکہ ملاحظہ کیجئے:
(1):حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی:''بے شک ہم لوگ یہود سے کچھ ایسی باتیں سنتے ہیں، جو ہمیں اچھی لگتی ہیں، کیا آپ مناسب سمجھتے ہیں کہ ہم اُن میں سے کچھ لکھ لیا کریں؟‘‘ آپ ﷺ نے بہ طور زَجر وانکار فرمایا:کیا تم لوگ دینِ اسلام کے بارے میں حیرت میں ہو جیسا کہ یہود ونصاریٰ اس کیفیت میں مبتلاہوگئے تھے، حالانکہ میں تمہارے پاس ایک پاکیزہ روشن دین وملّت لے کر آیا ہوںاور اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو ان کے لئے(بھی) میری پیروی کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا،(مسنداحمد:387/3)‘‘۔ (2): رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''جس نے مذاہبِ غیر کے ساتھ تَشَبُّہ اختیار کیا وہ ہم میں سے نہیں ، یہودونصاریٰ سے مشابہت اختیار نہ کرو، کیونکہ یہود کا سلام انگلیوں سے اشارہ کرناہے اور نصاریٰ کا سلام ہتھیلیوں سے اشارہ کرنا ہے،(سنن ترمذی:2695)‘‘۔
(3):حضرت جابررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' دین میں کسی بات کی بابت اہلِ کتاب سے نہ پوچھو، کیونکہ وہ تمہیں ہدایت ہرگز نہیں دینگے، جب کہ وہ خود گمراہ ہوچکے ہیں ، کیونکہ (دین کے بارے میںاُن سے مشابہت کرکے)یا تو تم باطل کی تصدیق کرو گے یا حق کو جھٹلاؤ گے ، کیونکہ اگر موسیٰ علیہ السلام (آج ) تمہارے درمیان زندہ ہوتے ، تو اُن پر بھی میری اتباع لازم ہوتی ، (مسنداحمد:14631)‘‘۔ (4):''مشرکین کی مخالفت کرو،(بخاری:5892)‘‘۔(5):''مجوس کی مخالفت کرو،(مسلم:260)‘‘۔ (6):''اور جس نے کسی ملت ِ باطلہ کے ساتھ مشابہت اختیار کی تو اس کا شمار اُنہی میں سے ہوگا،(سنن ابو داؤد :4028)‘‘۔
علامہ زین الدین ابن نُجیم حنفی لکھتے ہیں:''یادرکھو! کہ ہر بات میں اہلِ کتاب کے ساتھ تشبیہ مکرو ہ نہیں ہے، کیونکہ ہم بھی ان کی طرح کھاتے پیتے ہیں، صرف مذموم بات اور ایسی چیز میںجس میںتَشَبُّہ حرام ہے ان کے مذہب کے ساتھ مشابہت کا ارادہ کیا جائے ،(البحرالرائق ، جلد:2، ص:18)‘‘۔ امام احمد رضاقادری ،ملا علی قاری کے حوالے سے لکھتے ہیں:''ہمیں کافروں اورمنکَر بدعات کے مرتکب لوگوں کے شِعار میں مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے،وہ بدعت جو مباح کا درجہ رکھتی ہو اس سے نہیں روکا گیا ، خواہ وہ اہلسنت کے افعال ہوں یا کفار اور اہلِ بدعت کے، لہٰذا حرمت کا مدار مذہبی شِعار ہونے پر ہے،( منح الروض الازہرعلی الفقہ الاکبر،ص:185)‘‘۔
نیزامام احمد رضا قادری لکھتے ہیں:''تَشَبُّہ دو وجہ سے ہوتی ہے ، التزامی ولزومی ۔ التزامی یہ ہے کہ کوئی شخص کسی قوم کی خاص وضع کو اس نیت سے اختیار کرے کہ ان کی سی صورت بنائے اور ان کے ساتھ مشابہت اختیار کرے ، حقیقی تَشَبُّہ اسی کا نام ہے۔ التزامی میں قصد کی تین صورتیں ہیں:اوّل:اس قوم کو پسندیدہ سمجھ کران سے مشابہت اختیار کرے، یہ بات اگر اہلِ بدعت کے ساتھ ہوتوبدعت اور معاذ اللہ! کفار کے ساتھ ہوتو کفر۔ دوم :کسی غرضِ مقبول (جیسے دشمن کی جاسوسی کرنا) کی ضرورت کے تحت اسے اختیار کرے، وہاں اس وضع کی شَناعت (خرابیاں)اور اس غرض کی ضرورت کا موازنہ ہوگا، اگر ضرورت غالب ہو تو ضرورت کی حدتک تَشَبُّہ، کفر تودور کی بات، ممنوع بھی نہیںہوگا۔ سوم: نہ تو انہیں اچھا جانتا ہے ، نہ کوئی شرعی ضرورت اس کی داعی ہے، بلکہ کسی دنیوی نفع کے لئے یا یونہی بطورِ ہَزل واستہزاء (یعنی غیر سنجیدہ انداز میںیا مذاق کے طور پر) اس کا مرتکب ہوا، تو حرام وممنوع ہونے میں شک نہیں ۔اور اگر وہ وضع ان کفار کا مذہبی و دینی شِعار ہے ، جیسے زُنّار، قَشقہ ، چُٹیایا چلیپا اور گلے میں صلیب لٹکانا، توعلماء نے حکمِ کفر قرار دیا ہے۔ لزومی یہ کہ اس کا قصد تو مشابہت کا نہیں ہے ، مگر وہ وضع غیرمسلم قوم کا شِعار ہے کہ خواہی نخواہی مشابہت پیدا ہوگی،اس سے بچنا بھی واجب ہے ۔اسی وجہ سے علماء نے فسّاق کی وضع کے کپڑے پہننے سے منع فرمایا ہے، (ماخوذ ازفتاویٰ رضویہ ،جلد:24،ص:530-532)‘‘۔
شِعار کا واحدشَعِیرَہ یا شِعَارَہ ہے ،شِعَارَہ اور مَشْعَرہ کے معنی ہیں : ''خاص نشانی‘‘ ۔ اسی معنی میں خاص علامت کے حامل قربانی کے جانوروں کو اور صفاومروہ کو بھی قرآن میں ''شعائراللہ ‘‘کہا گیا ہے اور شعائراللہ کی تعظیم کو دلوں کا تقویٰ قرار دیا گیا ہے۔ اسی معنی میں بعض مقامات مثلاًکعبۃ اللہ ، میدانِ عرفات ، مُزدلِفہ ، جمارِثلاثہ اور مقامِ ابراہیم ہمارے دینی شعائرہیں ، اسی طرح زمانے کے بعض مخصوص اوقات ، جیسے رمضان، اَشہُرِحُرُم، عیدالفطر، عیدالاضحی، جمعہ ، ایامِ تشریق وغیرہ ہمارے دینی شعائر ہیں۔ اور بعض افعال جیسے اذان، اقامت ، نمازِ باجماعت، نمازِ جمعہ ، نمازِ عیدین اور ختنہ وغیرہ بھی ہمارے دینی شعائر ہیں،(تفسیر فتح العزیز ، ص:369)‘‘۔
الغرض یہود ونصاریٰ ، ہنوداور دیگر باطل ملّتوں کی وہ علامات جو اُن کا مذہبی شِعار ہیںاور جن پر نظر پڑتے ہی اُن کے مذہب کا تصور ذہن میں آتا ہے، ایسے اُمور میں اُن مذاہبِ باطلہ کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا حرام وممنوع ہے اور بعض صورتوں میں کفر بھی ہے۔ اسی طرح وہ افعال جو غیر مسلم قوم بطورِ مذہب انجام نہ دیتے ہوں بلکہ وہ ان کی طرزِ معاشرت ہو اور اسی قوم کے ساتھ خاص ہوں توان کو شِعار قومی کہا جاتاہے اور ان سے بچنا بھی لازم ہے۔ اس کے علاوہ ایسے امور میں اہلِ باطل کے ساتھ مشابہت ، جو ان کا مذہبی یا قومی شِعار نہیں ہے، حرام وممنوع نہیں ہے۔ چنانچہ امام احمد رضاقادری سے پوچھا گیا کہ: ''ایک خاص انداز میں باندھی جانے والی دھوتی کو ایک صاحب ہندو کاشِعار قرار دے کراس پر حُرمت کا فتویٰ لگا رہے ہیں‘‘۔ آپ لکھتے ہیں:''دھوتی باندھنے والے مسلمانوں کا یہ قصد تو ہر گز نہیں ہوتا کہ وہ کافروں کی سی صورت بنائیں اور فی نفسہٖ دھوتی کی حالت کو دیکھا جائے تو اس کی اپنی ذات میں کوئی حرج بھی نہیں ، بلکہ یہ ایک ایسا لباس ہے کہ جس سے سترِ عورت کا مقصدِ شرعی پورا ہورہا ہے، اصلِ سنت ولباس ِ پاک عرب یعنی تہبند سے صرف لٹکتا چھوڑنے اور پیچھے گُھرس لینے (اُڑس لینے)کا فرق رکھتی ہے، اس میں کسی امرِ شرع کا خلاف نہیں ، تو ممانعت کی دونوں وجہیں قطعاً نہیں پائی جاتیں۔رہا خاص شِعار کفار ہونا ، وہ بھی باطل ہوگا ۔ بنگالہ وغیرہ پورب (مشرقی ہند )کے عام شہروں میں ہند کے تمام رہنے والوں ،مسلمانوں اور ہندوؤں کا یہی لباس ہے۔ اسی طرح سب اضلاعِ ہند کے دیہات میں مسلمان اور ہندو یہی وضع رکھتے ہیں، حتّٰی کہ شہروں میں بھی بعض اہلِ حِرفت کام کے وقت یہی لباس پہنتے ہیں، ہاںیہاں کئی معزز شہریوں میں اس کا رواج نہیں ہے، مگر وہ صرف اس غرض سے کہ اپنی تہذیب کے خلاف سمجھتے ہیں ، نہ یہ کہ باندھنے والے کو کفر یا حرام کا مرتکب سمجھتے ہیں، تو زیادہ سے زیادہ باوقار اور معاشرے میں ذی وجاہت لوگوں کو گھر سے باہر اس کے پہننے سے احتراز کرنا چاہئے،(ماخوذ ازفتاویٰ رضویہ ، جلد:24، ص:534-35)‘‘۔
آج کل کوٹ ، پینٹ اور ٹائی عام لباس کی صورت اختیار کرگئے ہیں، جسے مسلم اور غیر مسلم سب پہنتے ہیں اور کوئی بھی اسے عیسائیت یا یہودیت کا مذہبی اورقومی شِعار نہیں سمجھتا، پس کفار کے ساتھ محض مشابہت ممنوع نہیں ہے، البتہ اگر کسی لباس سے سترِ عورت کا شرعی مقصد پورا نہ ہوتاہو، تو وہ اس اعتبار سے معیوب وممنوع سمجھا جائے گا۔ علامہ غلام رسول سعید ی لکھتے ہیں:''خلاصہ یہ ہے کہ کفار کے ساتھ تَشَبُّہ ان اُمور میں ممنوع ہے ، جو اُمور کفار کے عقائدِفاسدہ اور اعمالِ باطلہ کے ساتھ مخصوص ہوں یا جو امور کتاب وسنت کی تصریحات کے خلاف ہوں۔ اور جو امور ہمارے اور کفار کے درمیان مشترک ہوں یا جنہیں اختیار کرنا نفع مند ہو ، اُن میں اگر کفار کے ساتھ تَشَبُّہ واقع ہوجائے تو اُس میں کوئی حرج نہیں، بلکہ احادیث میں اس قسم کے امور کو اختیار کرنے کی بکثرت مثالیں ہیں ، جیسے شہر کے دفاع کے لئے خندق کھودنا کفارِ عجم کا طریقہ تھا، لیکن جب حضرت سلمان فارسی نے غزوۂ احزاب کے موقع پر مدینہ منورہ کے گرد خندق کھودنے کا مشورہ دیا تو نبی ﷺ نے اس مشورے کو قبول کرلیا، (تبیان القرآن ، جلد:9،ص:368)‘‘۔
اسی طرح انگریزی دنوں اور مہینوں کے نام ، جن کے پیچھے کوئی یونانی دیو مالائی تصورات ہیں ، اب انگریزی زبان میں ان دنوں اور مہینوں کا نام لینے والے عام آدمی کے ذہن میں وہ پسِ منظر قطعًا نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ نام اس زمانے میں کسی باطل مذہب کا مذہبی یا قومی شِعار ہیں، لہٰذا اُن پر بھی مشابہت ِصُوری یا ظاہری کے اعتبار سے حرمت کا فتویٰ لگا نا درست نہیں ہے اور یہ دین میں بلاضرورت عُسر(تنگی) پیدا کرنا ہے، جو شارع علیہ السلام کو پسند نہیں ہے اور اس سے کوئی مقصدِشرعی باطل نہیں ہوتا۔ کسی کی یاد منانے کے لئے موم بتی جلانا یہ مسلمانوں کا شِعار نہیں ہے اوراِسراف ہونے کی وجہ سے ناپسندیدہ امر ہے۔
Dunya.com.pk
Sudan: A misconception of apostasy | ||
Sudan's recent apostasy death sentence is a manifestation of the wrongful use of religion in politics. | ||
Apostasy - a term one would normally associate with times past - has recently seen a surge in its use and application. Sudan has had its fair share of controversies over the past years from "trousergate" to the "blasphemous teddy bear", but the latest case has upped the ante. A Sudanese court found Mariam Yahia Ibrahim, a pregnant Christian mother, guilty of apostasy and adultery and sentenced her to lashings and death, unless she renounces Christianity and reverts back to Islam. Mariam was born to a Christian Orthodox mother and a Muslim father, who abandoned the family when she was six years old, whereon Mariam was brought up by her mother as a Christian. Three years ago she married a fellow Christian man. They have an 18-months-old son together, but their marriage has been deemed illegal under Sudanese law. The eight-months-pregnant medical doctor was sentenced last week in a Khartoum court to 100 lashings for committing adultery and death by hanging for marrying a non-Muslim, but was given a four-day grace period in which to recant her faith, repent and potentially be saved from death. That grace period ended and Mariam refused to repent. The outcry over the case has naturally been ferocious, with both local and international rights groups and movements, governments and the media condemning the sentence and calling for the immediate release of Mariam. Amnesty International stated that Mariam is a "prisoner of conscience" and that "Adultery and apostasy are acts which should not be considered crimes at all. It is flagrant breach of international human rights law." The Sudanese youth movement Sudan Change Now issued a statement denouncing the case as a violation of her human and civil rights, an invasion of her privacy and reflects the ruling regime's continuing "crimes of social discrimination against women, social groups, and [the] religious sects to which Mariam belongs." In his "Islam, Saudi and apostasy" article, Mohamed Ghilan notes that it's a "commonly held belief that Islamic law dictates the death penalty as an absolute punishment for apostasy." He points out that this perception restricts the role of the Prophet to that of a religious figure issuing decrees. Furthermore, the Hadith that this belief is based on is sahih ("authentic") but it seemingly contradicts verses in the Quran guaranteeing freedom of belief. Other similar verses in the Quran state that the Prophet Mohamed should "remind" people of religion, not force them into it: "Therefore, you remind (them), for you are only a reminder; you are not a watcher over them (88:21-22)." At the heart of Mariam's case is an important issue: Can any entity, whether a state, a religious institution or a social group, dictate what an individual should or should not believe in? Religion is a highly private matter and it should stay such. Regardless of the fact that Mariam's father is Muslim (Sudanese law states that children must follow their father's religion), she herself identifies as a Chrisian woman and it is her decision to make. When asked by the presiding judge why she was insistent on abandoning Islam and embracing Christianity, Mariam replied: "I am Christian and I never committed apostasy." Article 126 of Sudan's Criminal Code states that "(1) Whoever propagates the renunciation of Islam or publicly renounces it by explicit words or an act of definitive indication is said to commit the offence of Riddah (apostasy)." Yet, Article 38 of the Freedom of Creed and Worship in Sudan's Bill of Rights overrides it: "Every person shall have the right to the freedom of religious creed and worship, and to declare his/her religion or creed and manifest the same, by way of worship, education, practice or performance of rites or ceremonies, subject to requirements of law and public order; no person shall be coerced to adopt such faith, that he/she does not believe in, nor to practice rites or services to which he/she does not voluntarily consent." So besides the fact that Sudan's constitution "protects" one's right to choose faith, in Mariam's case she did not renounce Islam simply because she never was a Muslim. Presumably she never lived her life as a Muslim, never declared she was one, nor that she was leaving her faith and finding solace in another. Mariam is a Christian and definitely not a "former Muslim". Sudan's ruling regime prides itself in a constitution that "preserves the rights of non-Muslims", but Mariam's case completely goes against that claim. In addition, Sudan is a signatory to a number of African and international treaties that "protect privacy and absolutely prohibit corporal punishment and the use of the death penalty in these contexts". The fact that the Sudanese regime does not acknowledge its international commitments is not surprising. After all, al-Bashir's government is responsible for continuous rights violations and atrocities against the Sudanese people in general, since seizing power back in 1989. There has been talk that the case of Mariam and the clampdown and arrests of students and activists is another tactic by the government to divert attention from the high profile case of officials' embezzlementand corruption. As a result, a pregnant mother is now facing death because of a political situation that she never should have been involved in. The government has ruled that individuals can no longer choose nor decide for themselves; only the government can judge and decide for the Sudanese citizens. Government officials seem to have forgotten that Islam teaches that only God can judge. Dallia M Abdelmoniem is a Sudanese journalist who has covered both Egypt and Sudan. Her work has appeared in various publications such as Your Middle East, Africa Review, The Citizen and Analysis Africa. Follow her on Twitter: @dalliasd
The views expressed in this article are the author's own and do not necessarily reflect Al Jazeera's editorial policy.
|