There is special significance about of day of birth of Prophets,as evident from following verses of Quran about John the Baptist (Yehya)and Jesus Christ [pbut].
وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا ﴿١٥﴾
Peace be upon him the day he was born, and the day he will die, and the day he will be raised up alive. (19:15)
وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا ﴿٣٣﴾
Peace be upon me the day I was born and the day I will die, and the day I will be raised up alive." (19:33)
Abu Qatada Ansari (Allah be pleased with him) reported that Allah's Massenger (may peace be upon him) was asked about fasting on monday, whereupon he said: It is (the day) when I was born and revelation was sent down to me. (Sahih Muslim Book #006, Hadith #2606) http://www.searchtruth.com/book_display.php?book=006...
The day of birth of the last Prophet Muhammad (pbuh) also has special significance. Although there is not tradition of celebration of his birthday the way it is done now. But if Muslims remember him, offer Drood, praise him and his works, his teachings, with in the limits of Sharia, then Whats the harm?
وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا ﴿١٥﴾
Peace be upon him the day he was born, and the day he will die, and the day he will be raised up alive. (19:15)
وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا ﴿٣٣﴾
Peace be upon me the day I was born and the day I will die, and the day I will be raised up alive." (19:33)
Abu Qatada Ansari (Allah be pleased with him) reported that Allah's Massenger (may peace be upon him) was asked about fasting on monday, whereupon he said: It is (the day) when I was born and revelation was sent down to me. (Sahih Muslim Book #006, Hadith #2606) http://www.searchtruth.com/book_display.php?book=006...
The day of birth of the last Prophet Muhammad (pbuh) also has special significance. Although there is not tradition of celebration of his birthday the way it is done now. But if Muslims remember him, offer Drood, praise him and his works, his teachings, with in the limits of Sharia, then Whats the harm?
There is no commandment prohibiting such a practice.However considering it as a religious duty may not be appropriate being a bidah. There are so many things bidah adopted later, like writing of Hadith, putting ara'b on Quanic verses for easy recitation, dividing Quran in 30 para for easy reading, even 20 Taraweeh offered in Ramadan was not practiced as being done now. We should accept some thing which is for the benefit of Muslims may be as cultural event if not religious function.Emphasis should be on adherence to Islamic spirit not un-Islamic practices. [Allah knows best]
''میلاد ‘‘کے معنی ہیں:''پیدائش کا وقت‘‘ اور ''مَولِد‘‘ کے معنی ہیں: ''پیدائش کی جگہ یا وقت‘‘ ، دراصل یہ ظرف کا صیغہ ہے اور ظرف زمانی بھی ہوتاہے اور مکانی بھی، یعنی کسی واقعے کے رونما ہونے کا زمانہ یا مُقام ، یعنی زمانۂ ولادت یا مُقامِ ولادت۔ میلادالنبیﷺ کے معنی ہیں: ''نبیِ کریمﷺکی ولادتِ باسعادت کے احوال بیان کرنا‘‘۔ حدیثِ پاک کی مستند کتاب ''سننِ ترمذی ‘‘ میں ہے :''بَابُ مَاجَائَ فِیْ مِیْلَادِالنَّبِیِّﷺ‘‘، ''یعنی میلادالنبیﷺ کا بیان‘‘۔ اس باب کے تحت امام ابو عیسیٰ ترمذی اپنی سند کے ساتھ قیس بن مَخرمہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:میں اور رسول اللہﷺ ''عامُ الفیل‘‘ میں پیدا ہوئے اورحضرت عثمان نے قُباث بن اَشیَم سے پوچھا: عمر میں آپ بڑے ہیں یا رسول اللہﷺ؟،توانہوںنے کہا:(مرتبے میں تویقینا) رسول اللہﷺمجھ سے بڑے ہیں،البتہ میری ولادت اُن سے پہلے ہوئی۔رسول اللہﷺعام ُالفیل میں پیدا ہوئے(سنن ترمذی:3619)‘‘۔ اس حدیث میں رسول اللہﷺکے زمانۂ ولادت بیان کرنے کو ''میلادالنبیﷺ‘‘کا عنوان دیا گیا۔
اﷲتعالیٰ کاارشادہے:''(حضرت یحییٰ علیہ السلام کے بارے میںفرمایا:)اوران پر سلام ہوجس دن وہ پیدا ہوئے اور جس دن ان کی وفات ہوگی اور جس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں گے، (مریم:15)‘‘۔ ''(حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں ) اور مجھ پر سلام ہوجس دن میں پیدا کیا گیا اور جس دن میری وفات ہوگی اور جس دن میں (دوبارہ) زندہ اٹھایا جاؤں گا،(مریم:33)‘‘۔ ان دونوں آیاتِ مبارَکہ سے معلوم ہوا کہ انبیائِ کرام کی ولادت کے دن اُن پر سلام بھیجنا سنتِ الٰہیہ ہے اور خود سُنّتِ انبیاء بھی ہے۔اور یہ مسلَّمہ اصول ہے کہ سابق انبیائِ کرام کے حوالے سے جو امور قرآن مجید میں بطورِ فضیلت بیان فرمائے گئے ہیں اوراُن کی ممانعت نہیں فرمائی گئی ، وہ ہماری شریعت میں بھی جائزہیں ۔
مسلمانوں کے میلادالنبیﷺمنانے کا مقصد اس کائنات میں رسول اللہﷺکی تشریف آوری پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تشکُّر کا اظہار کرنا، رسول اللہﷺکے ولادتِ باسعادت کے احوال، آپ کے نسبِ پاک اور فضائل کا بیان کرنا ہے اور یہ خود رسول اللہﷺسے ثابت ہے: ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:''رسول اللہ ﷺ سے پیر کے روزے کی بابت پوچھاگیا، آپﷺنے فرمایا: اس دن میری ولادت ہوئی اور اسی دن میری بعثت(اعلانِ نبوت) ہوئی یا مجھ پر (پہلی بار)وحی نازل ہوئی،(صحیح مسلم:2745)‘‘۔ اس حدیثِ پاک سے معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺاپنی ولادتِ باسعادت کے شکرانے کے طور پر پیر کے دن نفلی روزہ رکھا کرتے تھے اورولادتِ مصطفیﷺکا تشکُّر خود رسول اللہﷺکی سنت ہے۔اس حدیث کی شرح میں ملاّ علی قاری لکھتے ہیں:''اس حدیث میں اس بات پر دلالت ہے کہ جس جگہ اور جس زمانے میں کوئی مبارک ومسعود واقعہ ہوا ہو، تو اس کی وجہ سے اس زمان ومکان کو شرَف وبرکت مل جاتی ہے،(مرقاۃ المفاتیح ، جلد:4،ص:475)‘‘۔ سنن ترمذی ـ : 746اور سننِ ابوداؤد:2452اور سننِ نسائی: 2419میں بھی نبیِ کریم ﷺ کے سوموارکے نفلی روزے کا بیان ہے ۔اسی طرح رسول اللہ ﷺ سے اپنے نسبِ پاک کا بیان بھی ثابت ہے۔''واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سنا : رسول اللہ ﷺ فرمارہے تھے: اللہ تعالیٰ نے اولادِاسماعیل میں سے کِنانہ کو چن لیا اورکنانہ کی اولادسے قریش کو چن لیا اور قریش میں سے بنو ہاشم کو چن لیا اور بنو ہاشم میں سے مجھے چن لیا،(صحیح مسلم:2276)‘‘۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے اپنے والدِ ماجد حضرت عبداللہ سے بائیسویں پشت پر حضرت عدنان تک اپنا نسب بیان فرمایااورفرمایا: جب بھی لوگوں کے دو گروہ ہوئے ، اللہ تعالیٰ نے مجھے ان میں سے بہتر گروہ میں رکھا، میں (جائز) ماں باپ سے پیدا کیا گیا ہوں ، مجھے زمانۂ جاہلیت کی بدکاری سے کوئی چیز نہیں پہنچی۔ میں نکاح سے پیدا کیا گیا ہوں، بدکاری سے پیدا نہیں کیاگیا، حضرت آدم وحواسے لے کرنسب کی پاکدامنی کا یہ سلسلہ میرے والدین تک قائم رہا، میں بطورِشخصیت کے تم سب سے بہتر ہوں اور بطورباپ کے تم سب سے بہتر ہوں ، (دلائل النبوۃ ، جلد:1،ص:174-175)‘‘۔
آپﷺسے روایت کردہ احادیث کا مفہوم یہ ہے کہ آپ کا نورِ نبوت اور نسب حضرت آدم وحوا علیہما السلام سے لے کر حضرت عبداللہ وآمنہ تک مسلسل پاک پشتوں سے پاکیزہ ارحام میں منتقل ہوتا رہا اور آپ کے تمام آباء اور اُمَّہات میں عہدِ اسلام کے طریقۂ نکاح کے مطابق رشتۂ ازدواج قائم ہوا، لہٰذا آپ کا پورا سلسلۂ نسب طیب وطاہر اور کائنات میں سب سے اعلیٰ ہے، بیہقی کی '' دلائل النبوۃ ‘‘اور محمد بن یوسف صالحی کی ''سُبُلُ الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد‘‘اور دیگر کتبِ سیرت میں یہ احادیث موجود ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ ﷺ اس کائنات میں اﷲتعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہیں اور اس کی بے شمارنعمتوں میں سے واحد نعمت ہے کہ جس کا اس نے بطورِ خاص اہلِ ایمان پر احسان بھی جتلایا ہے، ارشادہوا:''یقینا اﷲ تعالیٰ نے اہلِ ایمان پر احسان فرمایا کہ ان کے درمیان انہی میں سے رسولِ عظیم کو مبعوث فرمایا ، جوان پر آیاتِ الٰہی کی تلاوت کرتے ہیں اور ان کے (قلوب واذہان) کا تزکیہ کرتے ہیں اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں ، اگر چہ وہ اس سے پہلی کھلی گمراہی میں تھے،(آلِ عمران:164)‘‘۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ بھی حکم ہے: ''اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو،(الضحیٰ :11)‘‘۔
قرآنِ مجید میں عید کا ذکر: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''عیسیٰ ابن مریم نے دعا کی: اے ہمارے رب ! ہم پر آسمان سے کھانے کا خوان نازل فرما ، (تاکہ) وہ دن ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لئے عید ہوجائے اور تیری طرف سے (قدرت کی )نشانی ہوجائے اور ہمیں رزق عطا فرما اور تو سب سے بہتر رزق عطا فرمانے والا ہے(المائدہ:114)‘‘۔اس آیتِ مبارَکہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ''خوانِ نعمت ‘‘ کے نزول کے دن کو یومِ عید قرار دیا اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ان کی اس دعاکاذکرفرمایا۔ پس معلوم ہوا کہ نزولِ نعمت یا حصولِ نعمت کے موقع کو عید سے تعبیر کرسکتے ہیں۔چنانچہ سعودی عرب میں ملک عبدالعزیز کی بادشاہت کے قیام کے دن کو ''عیدُالوَطَنی‘‘ کہا جاتاہے اور سعودی عرب کے علماء سمیت کسی نے بھی اسے بدعت سے تعبیر نہیں کیا ۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ وہ تو دنیاوی معاملہ ہے ، جبکہ میلادالنبی ﷺ کو دین کا شِعار سمجھ کر کیا جاتاہے، اس لئے اس کی مخالفت کی جاتی ہے۔ ہم شروع میں بیان کرآئے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی ولادتِ مبارَکہ اور بعثت کے دن کا تشکر روزہ رکھ کر مناتے تھے اور رسول اﷲ ﷺ کا فعل شِعارِ دین ہی قرار پائے گا ، کیونکہ نعمت کا تعلق بھی دین سے ہے۔ اسی طرح حدیثِ پاک میں ہے:'' جب نبیﷺمدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہود یومِ عاشور کا روزہ رکھتے ہیں ، توآپ ﷺ نے اس کی وجہ پوچھی؟، صحابہؓ نے عرض کی! یہ نیک دن ہے ، اس دن اللہ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمنوںسے نجات عطا فرمائی تھی، تو موسیٰ علیہ السلام نے (اس کے شکرانے کے طور پر ) روزہ رکھا۔ (نبی ِ کریمﷺ نے) فرمایا: میرا موسیٰ سے تعلق تمہاری بہ نسبت زیادہ ہے ، پس آپ نے خود بھی روزہ رکھا اور (صحابۂ کرام کو بھی) روزہ رکھنے کا حکم دیا،(صحیح بخاری:2004)‘‘۔ دوسری احادیثِ مبارَکہ میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے یہود کی مشابہت سے بچنے کے لئے صحابۂ کرامؓ کو دس محرم کے ساتھ ایک دن پہلے (یعنی نو محرم ) یا ایک دن بعد (یعنی گیارہ محرم) کو ملا کر دو دن کا نفلی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا، اس سے یہ منشائِ رسالت معلوم ہوا کہ اگر کوئی کام فی نفسہٖ شریعت کی نظر میں پسندیدہ ہے اور کسی جہت سے اس میں مشابہت کا عنصر پایا جاتاہے، تو محض مشابہت کی وجہ سے اس پسندیدہ کام کو ترک نہیں کیا جائے گا بلکہ مشابَہتِ صُوری سے بچنے کے لئے کوئی بہتر حکمتِ عملی اختیار کی جائے گی۔
شیخ الحدیث علامہ غلام رسول سعیدی نے شرح صحیح مسلم ، جلد:3، ص:169تا190میں میلادالنبیﷺکے موضوع پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔انہوںنے احناف کے مسلَّمہ اکابر علامہ ابن عابدین شامی کی ''شَرحُ الْمَوْلِد لِابْنِ حَجربحوالہ: جواہر البحار، جلد:3،ص:340‘‘ اورملاّ علی قاری کی اَلْمَوْلِدُالرَّوِی فیِ الْمَوْلدِالنَّبَوِی،ص:7-8کے حوالے سے ثابت کیا کہ یہ اکابرِ اُمّت بھی میلادالنبی ﷺ کے جواز کے قائل تھے۔
برصغیر کی مسلّمہ دینی وعلمی شخصیت شاہ ولی اﷲ محدّث دہلوی ''اَلدُّ رُالثَّمِیْن فِیْ مُبَشَّرَاۃِ النَّبِیِ الْاَمِیْن‘‘میں لکھتے ہیں:''میلاد کا اہتمام میرے والدِ گرامی(شاہ عبدالرحیم ) فرماتے تھے کہ میں یومِ میلاد کے موقعہ پر کھاناپکوایاکرتاتھا۔اتفاق سے ایک سال کوئی چیز میسر نہ آسکی کہ کھاناپکواؤں ، صرف بھنے ہوئے چنے موجود تھے،چنانچہ یہی چنے میں نے لوگوں میں تقسیم کیے۔خواب میں دیکھاکہ آنحضرتﷺتشریف فرماہیں،یہی چنے آپ کے سامنے رکھے ہیں اورآپ نہایت خوش اورمسروردکھائی دے رہے ہیں۔(رسائلِ شاہ ولی اﷲ دہلوی:254)‘‘۔یعنی میلاد کایہ اہتمام رسول اللہ ﷺکی نظرمیں محبوب تھا۔
شیخ عبداللہ بن محمد بن عبدالوہاب نجدی' مختصر سیرۃ الرسول‘ میں لکھتے ہیں:''ثُوَیبہ ابولہب کی باندی تھی ، جب نبیِ کریم ﷺ کی ولادت ہوئی،تواس نے اپنے آقا کو بھتیجے کی ولادت کی خوشخبری سنائی،اس خوشی میں ابولہب نے انگلی کے اشارے سے اُسے آزادکردیا، بعدمیں ثُوَیبہ نے آپﷺکو دودھ بھی پلایا۔ ابولہب کی وفات کے بعد کسی نے اسے خواب میں دیکھا اور پوچھاکہ تمہارے ساتھ کیاسلوک ہوا؟۔اس نے بتایا: تم سے جدا ہونے کے بعد عذاب میں مبتلاہوں، مگرہرپیرکے دن انگلی سے ٹھنڈک ملتی ہے۔پس مقامِ غور ہے کہ جب ابولہب جیسے دشمنِ رسول کافرکو ولادتِ محمد ؐبن عبداللہ کی خوشی منانے پر جہنم میں راحت مل سکتی ہے، تو ایک مسلمان کومحمد رسول اللہﷺکی ولادت کی خوشی منانے پر بے پایاں اجرکیوں نہیں ملے گا؟یہ عبارت کاخلاصہ ہے‘‘۔ امام محمد بن اسماعیل بخاری نے بھی قدرِاختصار کے ساتھ اسی واقعہ کو بیان کیا ہے،(صحیح بخاری:5101)‘‘۔
علامہ سعیدی نے علمائِ دیوبند کے شیخِ طریقت حاجی امداداللہ مہاجر مکی کا یہ قول نقل کیا:''اور مَشرَب فقیر کا یہ ہے کہ محفلِ مَولِد میں شریک ہوتاہوں،بلکہ ذریعۂ برکات سمجھ کرہرسال منعقد کرتااورقیام میں لطف ولذت پاتاہوں،(فیصلہ ہفت مسئلہ:05)‘‘... وہ مزید لکھتے ہیں:''ہمارے علماء مَولِد شریف میں بہت تنازعہ کرتے ہیں،تاہم علماء جواز کی طرف بھی گئے ہیں،جب صورت جواز کی موجود ہے،پھر کیوں ایسا تشدُّد کرتے ہیں اور ہمارے واسطے اِتَّباعِ حرمین کافی ہے،البتہ وقت قیام کے، اعتقاد تولُّد کا نہ کرنا چاہئے،اگر احتمالِ تشریف آوری کیا جاوے ، مُضائقہ(حرج)نہیں،کیونکہ عالم خَلق مقید بہ زمان ومکان ہے ،لیکن عالَم اَمر دونوں سے پاک ہے ، پس قدم رنجہ فرمانا ذاتِ بابرکات کا بعید نہیں ‘‘... وہ مزید لکھتے ہیں: ''مولِد شریف تمام اہلِ حرمین کرتے ہیں، اسی قدر ہمارے واسطے حجت کافی ہے اور حضرتِ رسالت پناہ کا ذکر کیسے مذموم ہوسکتاہے؟، البتہ جو زیادتیاں لوگوں نے اختراع کی ہیں ، نہ چاہئیں اور قیام کے بارے میں کچھ نہیں کہتا،ہاں مجھ کو ایک کیفیت، قیام میں حاصل ہوتی ہے‘‘... وہ مزید لکھتے ہیں: ''اگر کسی عمل میںغیر مشروع عوارض(خارجی امور)لاحق ہوں ، تو اُن عوارض کو دور کرنا چاہئے،نہ یہ کہ اصل عمل سے انکار کردیا جائے،ایسے امور سے انکار کرنا خیرِ کثیر سے بازرکھنا ہے، جیسے قیام ِمولِد شریف،اگر بوجہ آنے نام آنحضرت کے کوئی شخص تعظیماً قیام کرے تو اس میں کیا خرابی ہے؟،جب کوئی آتاہے تولوگ اس کی تعظیم کے واسطے کھڑے ہوجاتے ہیں،اگر سردارِ عالَم وعالمیاں(رُوحی فداہُ)کے اسمِ گرامی کی تعظیم کی گئی تو کیا گناہ ہوا،(شمائمِ امدادیہ:47,50,68)‘‘۔
علمائِ دیوبند کے مُسَلمَّہ پیشوا علامہ اشرف علی تھانوی نے اس آخری جملے پر حاشیے میں لکھا ہے: '' البتہ اصرار کرنا کہ تارکین سے نفرت کرنازیادتی ہے،(امدادالمشتاق:68)‘‘۔اس عبارت سے ہمیں اتفاق ہے ، کیونکہ کسی مستحب یا پسندیدہ امر کو ترک کرنے پر ملامت کرنا اسے واجب قرار دینا ہے اور یہ درست نہیں ہے ۔ اس حاشیے پر علامہ غلام رسول سعیدی نے یہ اضافہ کیاہے :''اور میں کہتا ہوں کہ اس سے بھی بڑی زیادتی یہ ہے کہ محفلِ میلاد کو ''بدعتِ سَیِّئَہ‘‘ قرار دیا جائے اور میلاد شریف کرنے والوں سے نفرت کی جائے اور انہیں اہلِ بدعت کے نام سے پکارا جائے‘‘۔
ہمارا مَوقِف بھی یہی ہے کہ فی نفسہٖ میلادالنبی ﷺ جائزبلکہ مستحسن ہے ، لیکن میلادالنبی کے عنوان سے قائم مجالس اور جلوسوں کو ہر قسم کی بدعات، مُنکَرات اور خرافات سے پاک ہوناچاہئے تاکہ چند لوگوں کی بے اعتدالیوں کی بنا پر ایک مستحسن امر کے خلاف منفی پروپیگنڈے کا جواز نہ مل سکے۔
مشہور اہلحدیث عالِم علامہ وحیدالزمان لکھتے ہیں:''اِس حدیث(یعنی رسول اللہ کا پیرکا روزہ رکھنے) سے ایک جماعتِ علماء نے آپ کی ولادت کی خوشی یعنی مجلسِ میلاد کرنے کا جوازثابت کیاہے۔اورحق یہ ہے کہ اگراس مجلس میں آپ کی ولادت کے مقاصداوردنیاکی رہنمائی کے لئے آپ کی ضرورت اورامورِرسالت کی حقیقت کوبالکل صحیح طریقہ پر اس لئے بیان کیاجائے کہ لوگوں میں اِس حقیقت کاچرچا ہواورسننے والے یہ ارادہ کرکے سُنیں کہ ہم کو اپنی زندگیاں اُسوۂ رسول ؐ کے مطابق گزارنا ہیںاور ایسی مجالس میں کوئی بدعت نہ ہو،تومبارک ہیں ایسی مجلسیں، اور حق کے طالب ہیں ان میں حصہ لینے والے، بہرحال یہ ضرور ہے کہ یہ مجلسیں عہدِ صحابہ میں نہ تھیں،(لغات الحدیث، جلد:3،ص:119)‘‘۔
یہ بات درست ہے کہ موجودہ ہیئت پر جو مجالسِ میلادالنبیﷺ منعقد ہوتی ہیں یا جلوس کا شِعار ہے ، یہ جدید دور کی معروف اَقدار ہیں اور دین کے بہت سے شعبوں میں ہم نے دورِ جدید کے شِعار اور اَقدار کو اپنایا ہے، مثلاً : مُصحفِ مبارک میں سورتوں کے نام، آیات کی علامات، اِعراب لگاناوغیرہ۔ کتبِ احادیث بھی دوسری صدی ہجری میں یااس کے بعد مرتب ہوئیں ۔ قرآن وحدیث کو سمجھنے کے لئے تمام معاون علوم بعد میں ایجاد اور مُدَوَّن ہوئے، عالی شان مساجدا ور مدارس قائم ہوئے ، دینی لٹریچر کی جدید اندازمیں نشرواشاعت کا انتظام ہوا۔اورکسی نظریے سے وابستگی کے اظہار کے لئے یا کسی غلط بات کے استرداد اوراس پر احتجاج ریکارڈ کرانے کے لئے جلوس نکالنے کی روش قائم ہوئی ۔ تقریباً تمام مکاتبِ فکر نے دینی مقاصد کے لئے جلوس نکالے، مثلاً: شوکتِ اسلام ، نفاذِ شریعت ، ناموسِ رسالت اور عظمتِ صحابہ وغیرہ کے نام پر جلوس نکالے جاتے رہے ہیں اور یہ تمام سرگرمیاں دین اور مقاصدِدین سے تعلق رکھتی ہیں اور انہیں اس دورمیں قبولِ عام مل چکا ہے ۔ اسی طرح دینی جماعتوں کاقیام، تبلیغی اجتماعات کاانعقاد، افتتاحِ بخاری یا ختمِ بخاری کی تقریبات ، مدارس کے سالانہ جلسے یا پچاس سالہ اورڈیڑھ سوسالہ جشن، سیرت النبی ﷺکے جلسوںکاانعقاد، انٹرنیٹ کادرسِ قرآن اوردین کے ابلاغ کے لئے استعمال وغیرہ ۔ مقامِ حیرت ہے کہ اس طرح کی تمام سرگرمیوں پر کبھی کسی نے کوئی فتویٰ صادر نہیں کیا، توصرف محافل وجلوسِ میلادالنبی ﷺ کو ہدفِ تنقید بنانا یا بدعت قرار دینا انتہائی زیادتی ہے۔
میلادالنبیﷺکو بدعت قرار دینے والوں کا کام آسان ہے کہ وہ فتویٰ دے کر اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں ، لیکن میرا درد اس سے سوا ہے۔میری خواہش ہے کہ ان مجالس کو دینی تعلیم و تربیت کا مؤثر ذریعہ بنانا چاہئے اور محبتِ رسول اللہﷺکاثمر اِطاعت واِتباعِ نبوی کی صورت میں ظاہر ہوناچاہئے۔پیشہ وَر واعظین، موضوع روایات بیان کرکے لوگوں کی عقیدت کو اپنی دنیاسنوارنے کے لئے ابھارتے ہیں اوراِسے روحانی سرور کا ذریعہ بنالیاگیا ہے۔خیر کاکام اِس انداز سے ہوناچاہئے کہ اُس کے مثبت نتائج برآمد ہوں، لاؤڈ اسپیکر کا استعمال بقدرِضرورت اور مناسب وقت تک ہو،یہ نہ ہو کہ لاؤڈ اسپیکر کے شور سے لوگوں میں بیزاری اور نفرت پیداکی جائے،کسی اور کی غلط رَوِش کو اپنے لئے جواز نہ بنایاجائے۔چراغاں کے لئے بجلی کا استعمال قانون کے دائرے میں ہونا چاہئے ،ناجائز طریقے اختیار کرکے اُسے سعادت یا باعثِ اجرسمجھنا غیر شرعی فعل ہے،اﷲتعالیٰ فرماتاہے : ''اے ایمان والو ! (اللہ کی راہ میں ) اپنی پاکیزہ کمائی میں سے او ر اُن چیزوں میں سے خرچ کروجوہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالی ہیں،اور ناقص چیزیں خرچ کرنے کا اِرادہ نہ کرو ،جن کو تم خود بھی چشم پوشی کئے بغیر(خوشدلی سے )نہ لو،(بقرہ:267)‘‘۔مالِ حرام کوحرام سمجھتے ہوئے اﷲکی راہ میں صدقہ کرنااوراس پراجرکی امیدکرناایمان کے منافی ہے۔
By Mufti Muneeb ur Rehman
Related: