Featured Post

قرآن آخری کتاب Quran : The Last Book

Don't Discard Quran: Quran is the Only Last, Complete, Protected Divine Book of Guidance, without any doubt, all other books are h...

25.3.13

Hadith an other perspective

احادیث کی حیثیت

"احادیث چند انسانوں سے چند انسانوں تک پہنچتی ہوئی آئی ہیں۔جن سے حد سے حد اگر کوئی چیز حاصل ہوتی ہے تو وہ گمانِ حجت ہے نہ کہ علمِ یقین۔اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس خطرہ میں ڈالنا ہرگز پسند نہیں کرتا کہ جو اُمور اس کے دین میں اتنے اہم ہوں کہ ان سے کفر و ایمان کا فرق واقع ہوتا ہو ، اُنہیں صرف چند انسانوں کی روایت پر منحضر کر دیا جائے"(رسائل و مسائل ، ابو الاعلیٰ مودودی، صفحہ 67 )

۔ یہ مواد اس حد تک قابلِ اعتماد ضرور ہے کہ سنت نبویﷺ اور آثارِ صحابہ رضوان اللہ کی تحقیق میں اس سے مدد لی جائے اور اسکا مناسب خیال کیا جائے۔ مگر اس قابل نہیں کہ بالکل اسی پر اعتبار کرلیا جائے (تفہیمات، حصہ اول، صفحہ 
322، ابو الاعلیٰ مودودی)۔

یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے کہ کتبِ احادیث میں جتنی احادیث درج  ہیں  ان کے 
مضامین کو جوں کا توں بلا تنقید قبول کر لینا چاہئے۔صحیح احادیث   کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے: ایک وہ جن کے احکام میں ردّوبدل نہیں ہوسکتا، اور دوسری وہ جن میں اجتہاد کیا جاسکتا ہے۔

اب رہ گئےاحکام، تو قرآن میں ان کے متعلق زیادہ تر کلّی قوانین بیان کئے گئے ہیں 
اور بیشتر امور میں تفصیلات کو چھوڑا گیا ہے۔نبی کریمﷺ نے عملاً ان احکام کو زندگی کے معاملات میں جاری فرمایا اور اپنے عمل اور قول سے ان کی تفصیلات ظاہر فرمائیں۔ان تفصیلات میں بعض ایسی ہیں جن میں ہمارے اجتہاد کو کوئی دخل نہیں۔ہم پر لازم ہے کہ جیسا عمل حضورﷺ سے ثابت ہے، اس کی پیروی کریں۔مثلاً عبادات کے احکام۔اور بعض تفاصیل ایسی ہیں کہ ان سے ہم اصول اخذ کرکے اپنے اجتہاد سے فروغ مستنبط کر سکتے ہیں۔مثلاً عہدِ نبوی ﷺ کے قوانینِ مدنی"۔ (تفہیمات، حصہ اول، ابو الاعلیٰ مودودی، صفحہ 332 اور 333)۔

" یہ حقیقت ناقابلِ انکار ہے کہ شارع نے غائت درجہ کی حکمت اور کمال درجہ کے علم سے کام لے کر اپنے احکام کی بجاآوری کیلئے زیادہ تر ایسی ہی صورتیں تجویز کی ہیں جو تمام زمانوں اور تمام حالات میں اس مقصد کو پورا کرتی ہیں لیکن اس کے باوجود بکثرت جزئیات ایسے بھی ہیں جن میں تغیرِ حالات کے لحاظ سے احکام میں تغیر ہونا ضروری ہے۔جو حالات عہدِ رسالت ﷺ اور عہدصحابہ رضوان اللہ میں عرب اور دنیائے اسلام کے تھے، لازم نہیں کہ بعینہِ وہی حالات ہر زمانے اور ہر ملک کے ہوں۔لہٰذا احکامِ اسلامی پر عمل کرنے کی جو صورتیں ان حالات میں اختیار کی گئی تھیں، ان کو ہو بہو، تمام زمانوں میں، تمام حالات میں قائم رکھنا اور مصالح کے لحاظ سے ان جزئیات میں کسی قسم کا ردّ وبدل نہ کرنا، ایک طرح کی رسم پرستی ہے جس کو روحِ اسلامی سے کوئی علاقہ نہیں۔۔۔۔۔پس معلوم ہوا کہ جزئیات میں دلالۃ انص اور اشارۃ النص تو ایک طرف، صراحۃ انص کی پیروی بھی تفقہ کے بغیر درست نہیں ہوتی۔اور تفقہ کا اقتضایہ ہے کہ انسان ہر مسئلہ میں شارع کے مقاصد و مصالح پر نظر رکھے اور انہی لحاظ سے جزئیات میں تغیر ِ احوال کے ساتھ ایسا تغیر کرتا رہے جو شارع کے اصولِ تشریع پر مبنی اور اس کے طرزِ عمل سے اقرب ہو۔(تفہیمات حصہ دوم،ابوالاعلیٰ مودودی، صفحہ 327 اور 328)۔

یہ مسلک یا عقیدہ نیا نہیں، بلکہ قدیم سے چلا آرہا ہے۔چنانچہ علامہ اقبالؒ نے خطبۂ ششم میں کہا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ اور شاہ ولی اللہ ؒ محدت دہلوی کا یہی مسلک تھا اور اسی کے مؤید خود علامہ اقبالؒ تھے۔وہ اس باب میں لکھتے ہیں کہ :

"احادیث کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ جن کی حیثیت قانونی ہے ، اور دوسری وہ جو قانونی حیثیت نہیں رکھتیں۔اول الذکر کے بارے میں ایک بڑا اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کس حد تک ان رسوم و رواج پر مشتمل ہیں جو اسلام سے پہلےعرب میں رائج تھے اور جن میں بعض کو رسول اللہ ﷺ نے علیٰ حالہِ رکھا اور بعض میں ترمیم فرما دی۔آج یہ مشکل ہے کہ ان چیزوں کو پورے طور پر معلوم کیا جاسکے کیوں کہ ہمارے متقدمین نے اپنی تصانیف میں زمانۂ قبل از اسلام کے رسوم  و رواج کا زیادہ ذکر نہیں کیا، نہ ہی یہ معلوم کرنا ممکن ہے کہ جن رسوم و رواج کو رسول اللہ ﷺ نے علی حالہِ رکھا، خواہ اُن کے لئے واضح طور پر حکم دیاہو یا ویسے ہی اُن کا استصواب فرما دیا ہو، اُنہیں ہمیشہ کیلئے نافذ العمل رکھنا مقصود تھا۔اس موضوع پر شاہ ولی اللہؒ نے بڑی عمدہ بحث کی ہے جس کا خلاصہ میں یہاں بیان کرتا ہوں

۔شاہ صاحبؒ نے کہا ہے  کہ پیغمبرانہ طریقِ تعلیم یہ ہوتا ہے کہ رسولؑ کے احکام ان لوگوں کے عادات و اطوار اور رسوم و رواج کو خاص طور پر ملحوظ رکھتے ہیں جو اس کے اولین مخاطب ہوتے ہیں۔پیغمبر کی تعلیم کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ وہ عالمگیر اصول عطا کر دے لیکن نہ  تو مختلف قوموں کیلئے مختلف اصول دیئے جاسکتے ہیں اور نہ ہی انہیں بغیر کسی اصول کے چھوڑا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے مسلکِ زندگی کیلئے جس قسم کے اصول چاہیں ، وضع کر لیں۔لہٰذا پیغمبر کا طریق یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک خاص قوم کو تیار کرتا ہے اور اُنہیں ایک عالمگیر شریعت کیلئے بطور خمیر استعمال کرتا ہے اس مقصد کیلئے وہ اصولوں پر زور دیتا ہے جو تمام نوعِ انسان کی معاشرتی زندگی کو اپنے سامنے رکھتے ہیں۔لیکن ان اصولوں کا نفاذ اس قوم کے عادات و خصائل کی روشنی میں کرتا ہے جو اُس وقت اُس کے سامنے ہوتی ہے۔اس طریق کار کی رو  سے رسول کے احکام اُس قوم کیلئے خاص ہوتے ہیں اور چونکہ ان احکام کی ادائیگی بجائے خویش مقصود بالذات نہیں ہوتی، اُنہیں آنے والی نسلوں پر من و عن نافذ نہیں کیا جاسکتا۔غالباً یہی وجہ تھی کہ امام اعظم ابو حنیفہؒ نے ( جو اسلام کی عالمگیریت کی خاص بصیرت رکھتے تھے) اپنے فقہ کی تدوین میں حدیثوں سے کام نہیں لیا۔اُنہوں نے تدوینِ فقہ میں استحسان کااصول وضع کیا، جس کا مفہوم یہ ہے کہ قانون وضع کرتے وقت اپنے زمانے کے تقاضوں کو سامنے رکھنا چاہئے۔اس سے احادیث کے متعلق ان کے نقطۂ نظر کی وضاحت ہوجاتی ہے۔یہ کہا جاتا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ نے تدوین فقہ میں احادیث سے اس لئے کام نہیں لیا کہ  اُن کے زمانے میں احادیث کے کوئی باضابطہ مجموعے مرتب نہیں ہوئے تھے۔ اول تو  یہ کہنا ہی درست نہیں  کہ اُن کے زمانے میں احادیث کے مجموعے موجود نہیں تھے۔امام مالک ؒ اور زہریؒ کے مجموعے اُن کی وفات سے قریب تیس سال پہلے مرتب ہوچکے تھے۔لیکن اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ یہ مجموعے امام صاحب تک پہنچ نہیں پائے تھے یا اُن میں قانونی حیثیت کی احادیث موجود نہیں تھیں تو اگر امام صاحب اس کی ضرورت سمجھتے تو وہ احادیث کا اپنا مجموعہ مرتب  فرما سکتے تھے۔جیسا کہ  امام مالکؒ اور اُن کے بعد امام احمد بن حنبلؒ نے کیا تھا۔ان حالات کی روشنی میں مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ ان احادیث کے متعلق ، جن کی حیثیت قانونی ہے، امام ابو حنیفہ ؒ کا یہ طرزِ عمل بالکل معقول اور مناسب تھا۔اور اگر آج کوئی وسیع النظر مقنن یہ کہتا ہے کہ احادیث ہمارے لئے من و عن شریعت کے احکام نہیں بن سکتیں تو اس کا طرزِ عمل امام ابو حنیفہؒ کے طرزِ عمل کے ہم آہنگ ہوگا جن کا شمار فقہ  اسلامی کے بلند ترین مقّنین میں ہوتا ہے۔(خطبات اقبال، صفحہ 163 اور 164)۔

اس مسلک کی تائید میں ان حضرات کے پاس قرآنی دلائل و بینات ہیں۔جن کا ملخص حسبِ ذیل ہے:

(1)اسلام میں اصلاً و اساساً اطاعت صرف قوانینِ الٰہیہ کی ہے جو کتاب اللہ کے اندر مذکور ہیں۔ سورۂ انعام میں ہے:
کیا میں(یعنی رسول اللہ ﷺ) اللہ کے سوا کسی اور کو حاکم بنا لوں؟ حالانکہ اُس نے تمہاری طرف وہ کتاب نازل کر دی ہے جو ہر بات کو نکھار کر بیان کردیتی ہے6:115۔

 (2) جو اس کے مطابق فیصلے نہیں کرتا وہ مسلمان نہیں ہے۔ سورہ مائدہ میں ہے: "جو اس کے مطابق فیصلے نہیں کرتا جو اللہ نے نازل کیا ہے، تو یہی لوگ کافر ہیں5:44۔

(3) لیکن اللہ کی یہ اطاعت انفرادی طور پر نہیں ہوسکتی۔یہ نہیں کہ ہر شخص اپنے سامنے قرآن رکھ لے اور جس طرح اسکا  جی  چاہے اُسکی اطاعت کرتا رہے۔یہ اطاعت اجتماعی حیثیت سے ایک نظام کے تابع ہوگی جس کا مرکز اول رسول ﷺ کی ذات تھی لہٰذا اللہ کی اطاعت بواسطہ رسول ﷺ کے ہونی تھی۔سورۂ نساء میں ہے:

"جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی"4:80۔

 رسول کیلئے ضروری تھا کہ وہ ہر معاملہ کا فیصلہ قرآن کی رو سے کرتا۔سورۂ مائدہ میں ہے: فاحکم بینھم بمآ انزل اللہ ُ5:48۔

(4) لیکن کتاب اللہ کی صورت یہ ہے کہ اس میں (بجز چند مستثنیات) عام طور پر اصولی قوانین دے گئے ہیں۔ان قوانین کی جزئیات متعین نہیں کی گئیں۔یہ اصولی احکام مکمل اور غیر متبدل ہیں

6:116"تیرے رب کے قوانین صدق و عدل کے ساتھ مکمل ہوگئے۔ان میں تبدیلی کرنے والا کوئی نہیں"۔

(5)ان جزئیات کو غیر متعین اس لئے چھوڑا گیا کہ اگر انہیں بھی وحی کی رو سے متعین کردیا جاتا تو یہ بھی ہمیشہ کیلئے غیر متبدل ہوجاتیں۔ان کا غیر متبدل رکھنا منشائے الٰہیہ نہیں تھا۔چنانچہ سورۂ مائدہ میں ہے:

 "اے ایمان والو ! تم ایسی باتیں نہ پوچھا کرو کہ اگر وہ تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار گزریں۔اور یہ ظاہر ہے کہ جب تم ان کے متعلق ایسے وقت میں پوچھو گے جب قرآن نازل ہورہا ہے تو وہ تم پر ظاہر کر دی جائیں گی۔(بہر حال اب تک جو  کچھ تم کرچکے ہو) اللہ اس سے در گزر کرتا ہے۔اللہ غفور و حلیم ہے"5:101۔

 اس سے آگے ہے: "تم سے پہلے ایک قوم(بنی اسرائیل) نے اس قسم کی باتیں (کرید کرید کر ) پوچھی تھیں۔اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے (کچھ وقت کے بعد) اُن سے صاف انکار کر دیا(اور سرکشی برتنے لگے)5:102۔

 اس آیت کی تفسیر میں بنی اکرم ﷺ کی ایک حدیث نقل کی جاتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ :

" اللہ تعالیٰ نے کچھ باتوں کو فرض قرار دیا ہے انہیں ضائع مت کرو۔ کچھ چیزوں کو حرام قرار دیا ہے اُن کے پاس تک نہ پھٹکو۔کچھ حدود متعین کی ہیں اُن سے تجاوز مت کرو۔اور باقی چیزوں کے متعلق خاموشی اختیار کی ہے ان کے متعلق کرید مت کرو یاد رکھو جن چیزوں کے متعلق اللہ  نے خاموشی اختیار کی ہے اُس نے دانستہ ایسا کیا ہے۔یہ نہیں ہوا کہ اُس سے (معاذ اللہ )بھول ہوگئی ہے"۔

(6) اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن میں بیان کردہ غیر متبدل اصولوں کی روشنی میں ان جزئیات کو کس طرح مرتب کیا جائے جنہیں قرآن نے دانستہ غیر متعین چھوڑ دیا ہے۔ان کے متعلق نبی اکرم ﷺ کو حکم دیا گیا تھا:

"تم معاملات میں اُن (جماعتِ مومنین) سے مشورہ کرلیا کرو۔اس حکم کے تحت یہ غیر متعین جزئیات باہمی مشاورت سے طے پاتی تھیں۔ کتب روایات و سیر میں کئی واقعات مذکور ہیں جن سے ظاہر ہے کہ (حضورﷺ صحابہ رضوان اللہ سے مشورہ کیا کرتے تھے۔

(7) یہ سلسلہ نبی اکرم ﷺ کی زندگی میں اسی طرح قائم رہا۔اب سوال یہ سامنے آتا ہے کہ حضورﷺ کی وفات کے بعد اطاعتِ الٰہیہ کی کون سے صورت مقصود تھی۔ اس سلسلہ میں قرآن نے واضح طور پر بتا دیا کہ :

"محمدؐ بجز ایں نیست کہ اللہ کا ایک رسول ہے۔اُس سے پہلے بہت سے رسول گزرے ہیں۔سو اگر یہ وفات پاجائے یا قتل کر دیا جائے تو کیا تم اس کے بعد پھر الٹے پاؤں پھر جاؤگے؟"3:143۔
یعنی حضورﷺ کے بعد اطاعتِ الٰہیہ کے اسی سلسلہ کو بدستور قائم رکھنا مقصود تھا۔یہی وجہ تھی کہ حضورﷺ کی وفات کے بعدصحابہ رضوان اللہ عجمین نے سب سے پہلے یہ کام کیا کہ اپنے میں سے ایک کو حضورﷺ کا جانشین (خلیفہ) منتخب کرلیا۔جس طرح رسول اللہﷺ(اس سے پہلے اطاعت کراتے تھے)، اب خلیفۃ الرسولﷺ نے اسی اللہ کی اطاعت کرانا شروع کردی۔جس طرح اس سے پہلے ، رسول کی اطاعت سے عملاً اللہ کی اطاعت ہوتی تھی۔ اسی طرح اب خلیفۃ الرسولﷺ کے فیصلوں کی اطاعت ، اللہ اور رسول کی اطاعت تھی۔ اسی کے لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ :"تم  پر میرے طریقے اور میرے علماء راشدین المہدین کے طریقے کی پیروی لازمی ہے"(مشکوٰۃ باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)۔جس طرح رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا گیا تھا کہ :"ان (مومنین) سے معاملات میں مشورہ کیا کرو"3:159، اسی طرح خلافت کے متعلق تھا کہ :"ان کے معاملات باہمی مشورہ سے طے پائیں گے"42:38۔ اسی کو قرآن نے وہ سبیل المومنین قرار دیا ہے4:115۔
جسے چھوڑ کر کوئی دوسرا راستہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

آپکا علامہ اقبالؒ اور علامہ مولاناسید ابولاعلیٰ مودودیؒ کے متعلق کیا خیال ہے۔ کیا یہ منکرِ حدیث تھے؟
```````````````````````````````
سنت کے ماخذ قانون ہونے پر امت کا اجماع
آپ اگر واقعی قرآن کو مانتے ہیں اور اس کتاب مقدس کا نام لے کر خود اپنے من گھڑت نظریات کے معتقد بنے ہوئے نہیں ہیں تو دیکھ لیجیے کہ قرآن مجید صاف و صریح اور قطعاً غیر مشتبہ الفاظ میں رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو خدا کی طرف سے مقر کیا ہوا معلم، مربی، پیشوا، رہنما، شارحِ کلام اللہ، شارع (Law Giver)، قاضی اور حاکم و فرمانروا قرار دے رہا ہے۔ اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے یہ تمام مناصب اس کتاب پاک کی رو سے منصبِ رسالت کے اجزائے لاینفک ہیں۔ کلام الٰہی کی یہی تصریحات ہیں جن کی بنا پر صحابہ کرام کے دور سے لیکر آج تک تمام مسلمانوں نے بالاتفاق یہ مانا ہے کہ مذکورۂ بالا تمام حیثیات میں حضورﷺ نے جو کام کیا ہے وہ قرآن کے بعد دوسرا ماخذ قانون (Source of Law) ہے جب تک کوئی شخص انتہائی برخود غلط نہ ہو، وہ اس پندار میں مبتلا نہیں ہوسکتا کہ تمام دنیا کے مسلمان اور ہر زمانے کے سارے مسلمان قرآن پاک کی ان آیات کو سمجھنے میں غلطی کر گئے ہیں اور ٹھیک مطلب بس اس نے سمجھا ہے کہ حضور ﷺ صرف قرآن پڑھ کر سنا دینے کی حد تک رسول صلی اللہ علیہ و سلم تھے۔ اور اس کے بعد آپ کی حیثیت ایک عام مسلمان کی تھی۔ آخر اس کے ہاتھ وہ کون سی نرالی لغت آگئی ہے جس کی مدد سے قرآن کے الفاظ کا وہ مطلب اس نے سمجھا جو پوری امت کی سمجھ میں کبھی نہ آیا؟

2۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے تشریعی اختیارات

دوسرا نکتہ آپ نے یہ ارشاد فرمایا ہے:
"لیکن اس بات پر آپ سے اتفاق نہیں ہے کہ 23 سالہ پیغمبرانہ زندگی میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے جوکچھ کیا تھا، یہ وہ سنت ہے جو قرآن کے ساتھ مل کر حاکم اعلیٰ کے قانون برتر کی تشکیل و تکمیل کرتی ہے۔ بے شک حضور ﷺ نے حاکم اعلیٰ کے قانون کے مطابق معاشرہ کی تشکیل تو فرمائی لیکن یہ کہ کتاب اللہ کا قانون (نعوذباللہ) نامکمل تھا اور جو کچھ حضور ﷺ نے عملاً کیا اس سے اس قانون کی تکمیل ہوئی، میرے لیے ناقابل فہم ہے"۔

اسی سلسلے میں آگے چل کر آپ پھر فرماتے ہیں:
"نہ معلوم آپ کن وجوہات کی بنا پر کتاب اللہ کے قانون کو نامکمل قرار دیتے ہیں۔ کم از کم میرے لیے تو یہ تصور بھی جسم میں کپکپی پیدا کر دیتا ہے۔ کیا آپ قرآن کریم سے کوئی ایسی پیش (مثال ) فرمائیں گے جس سے معلوم ہوکہ قرآن کا قانون نامکمل ہے"۔

ان فقروں میں جوکچھ آپ نے فرمایا ہے، یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے جو علم قانون کے ایک مسلم قاعدے کو نہ سمجھنے کی وجہ سے آپ کو لاحق ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں یہ قاعدہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ قانون سازی کا اختیار اعلیٰ جس کو حاصل ہو وہ اگر ایک مجمل حکم دے کر یا ایک عمل کا حکم دے کر، یا ایک اصول طے کرکے اپنے ماتحت کسی شخص یا ادارے کو اس کی تفصیلات کے بارے میں قواعد و ضوابط مرتب کرنے کے اختیارات تفویض کردے تو اس کے مرتب کردہ قواعد و ضوابط قانون سے الگ کوئی چز نہیں ہوتے بلکہ اسی قانون کا ایک حصہ ہوتے ہیں۔ قانون ساز کا اپنا منشا یہ ہوتا ہے کہ جس عمل کا حکم بھی میں نے دیا ہے، ذیلی قواعد  بنا کر اس پر عمل درآمد کا طریقہ مقرر کر دیا جاۓ، جو اصول اس نے طے کیا ہے اس کی مطابق مفصل قوانین بنائے جائیں اور جو مجمل ہدایت اس نے دی ہے اس کے منشا کو تفصیلی شکل میں واضح کردیا جائے۔ اسی غرض کے لیے وہ خود اپنے ماتحت شخص یا اشخاص یا اداروں کو قواعد و ضوابط مرتب کرنے کا مجاز کرتا ہے۔یہ ذیلی قواعد بلاشبہ اصل ابتدائی قانون کے ساتھ مل کر اس کی تشکیل و تکمیل کرتے ہیں۔ مگر اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ قانون ساز نے غلطی سے ناقص قانون بنایا تھا اور کسی دوسرے نے آکر اس کا نقص دور کیا بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ قانون ساز نے اپنے قانون کا بنیادی حصہ خود بیان کیا اور تفصیلی حصہ اپنے مقرر کیے ہوۓ ایک شخص یا ادارے کے ذریعے سے مرتب کرا دیا۔

حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے تشریعی کام کی نوعیت

اللہ تعالیٰ نے اپنی قانون سازی میں یہی قاعدہ استعمال فرمایا ہے۔ اس نے قرآن میں مجمل احکام اور ہدایات دے کر، یا کچھ اصول بیان کرکے، یا اپنی پسندو ناپسند کا اظہار کرکے یہ کام اپنے رسول ﷺ کے سپرد کیا کہ وہ نہ صرف لفظی طور پر اس قانون کی تفصیلی شکل مرتب کریں بلکہ عملاً اسے برت کر اور اس کے مطابق کام کر کے بھی دکھادیں۔ یہ تفویضِ اختیارات کا فرمان خود قانون کے متن (یعنی قرآن مجید) میں موجود ہے۔
"اور (اے نبی) ہم نے یہ ذکر تمہاری طرف اس لیے نازل کیا ہے کہ تم لوگوں کے لیے واضح کردو اس تعلیم کو جو ان کی طرف اتاری گئی ہے۔(النمل:44)

اس صریح فرمانِ تفویض کے بعد آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا قولی اور عملی بیان، قرآن کے قانون سے الگ کوئی چیز ہے۔ یہ درحقیقت قرآن ہی کی رو سے اس کے قانون کا ایک حصہ ہے۔ اس کو چیلنج کرنے کے معنی خود قرآن کو اور خدا کے پروانۂ تفویض جو چیلنج کرنے کے ہیں۔

اس تشریعی کام کی چند مثالیں

یہ اگرچہ آپ کے نکتے کا پورا جواب ہے، لیکن میں مزید تفہیم کی خاطر چند مثالیں دیتا ہوں جن سے آپ یہ سمجھ سکیں گے کہ قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی شرح و بیان کے درمیان کس قسم کا تعلق ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا کہ وہ پاکیزگی کو پسند کرتا ہے۔ واللہ یحب المطھرین (التوبہ:10) اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت کی کہ اپنے لباس کو پاک رکھیں۔ وثیابک فطھر (المدثر:4) حضور ﷺ نے اس منشا پر عمل درآمد کے لیے استنجا اور طہارتِ جسم و لباس کے متعلق مفصل ہدایات دیں اور ان پر خود عمل کرکے بتایا۔

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اگر تم کو جنابت لاحق ہوگئی تو پاک ہوۓبغیر نماز نہ پڑھو (النساء:43، المائدہ:6)۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے تفصیل کے ساتھ بتایا کہ جنابت سے کیا مراد ہے۔ اس کا اطلاق کن حالتوں پر ہوتا ہے اور کن حالتوں پر نہیں ہوتا اور اس سے پاک ہونے کا طریقہ کیا ہے۔

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنا منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھولو، سر پر مسح کرو اور پاؤں دھوؤ، یا ان پر مسح کرو (المائدہ:6) نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا کہ منہ دھونے کے حکم میں کلی کرنا اور ناک صاف کرنا بھی شامل ہے۔ کان سر کا ایک حصہ ہیں اور سر کے ساتھ ان پر بھی مسح کرنا چاہئیے۔ پاؤں میں موزے ہوں تو مسح کیا جائے اور موزے نہ ہوں تو ان کو دھونا چاہیے۔ اس کے ساتھ آپ نے تفصیل کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ وضو کن حالات میں ٹوٹ جاتا ہے اور کن حالات میں باقی رہتا ہے۔ 

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ روزہ رکھنے والا رات کو اس وقت تک کھا پی سکتا ہے جب تک فجر کے وقت کالا تاگا سفید تاگے سے ممیز نہ ہوجائے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا کہ اس سے مراد تاریکیِٔ شب کے مقابلہ میں سپید ۂ صبح کا نمایاں ہونا ہے۔

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے کی چیزوں میں بعض اشیاء کے حرام اور بعض کے حلال ہونے کی تصریح کرنے کے بعد باقی اشیاء کے متعلق یہ عام ہدایت فرمائی کہ تمہارے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کی گئی ہیں (المائدہ:4) نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے قول اور عمل سے اس کی تفصیل بتائی کہ پاک چیزیں کیا ہیں جنہیں ہم کھاسکتے ہیں اور ناپاک چیزیں کون سی ہیں جن سے ہم کو بچنا چاہیے۔

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے وراثت کا قانون بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر میت کی نرینہ اولاد کوئی نہ ہو اور ایک لڑکی ہوتو وہ نصف ترکہ پائے گی اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زائد لڑکیاں ہوں تو ان کو ترکے کا دوتہائی حصہ ملے گا (النساء:11)۔ اس میں یہ بات واضح نہ تھی کہ اگر دولڑکیاں ہوں تو وہ کتنا حصہ پائیں گی۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے توضیح فرمائی کہ دو لڑکیوں کا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا دو سے زائد لڑکیوں کا مقرر کیا گیا ہے۔

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں جمع کرنے سے منع فرمایا (النساء:23)۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا کہ پھوپھی، بھتیجی اور خالہ بھانجی کو جمع کرنا بھی اسی حکم میں داخل ہے۔

قرآن مردوں کو اجازت دیتا ہے کہ دو دو، تین تین ، چار چار عورتوں سے نکاح کرلیں (النساء:3) یہ الفاظ اس معاملہ میں قطعاً واضح نہیں ہیں کہ ایک مرد بیک وقت چار سے زیادہ بیویاں نہیں رکھ سکتا۔ حکم کے اس منشاء کی وضاحت نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمائی اور جن لوگوں کے نکاح میں چار سے زائد بیویاں تھیں ان کو آپ نے حکم دیا کہ زائد بیویوں کو طلاق دے دیں۔

قرآن حج کی فرضیت کا عام حکم دیتا ہے اور یہ صراحت نہیں کرتا کہ اس فریضہ کو انجام دینے کے لیے آیا ہر مسلمان کو ہر سال حج کرنا چاہیے یا عمر میں ایک بار کافی ہے، یا ایک سے زیادہ مرتبہ جانا چاہیے (آل عمران:97)۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہی کی تشریح ہے جس سے ہم کو معلوم ہوا کہ عمر میں صرف ایک مرتبہ حج کرکے آدمی فریضۂ حج سے سبکدوش ہوجاتا ہے۔

قرآن سونے اور چاندی کے جمع کرنے پر سخت وعید فرماتا ہے۔ سورۂ توبہ کی آیت 34 کے الفاظ ملاحظہ فرمالیجئے۔ اس کے عموم میں اتنی گنجائش بھی نظر نہیں آتی کہ آپ روز مرہ کے خرچ سے زائد پیسہ بھی اپنے پاس رکھ سکیں، یا آپ کے گھر کی خواتین کے پاس سونے یا چاندی کا ایک تار بھی زیور کے طور پر رہ سکے۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہی ہیں جنہوں نے بتایا کہ سونے اور چاندی کا نصاب کیا ہے اور بقدر نصاب یا اس سے زیادہ سونا چاندی رکھنے والا آدمی اگر اس پر ڈھائی فی صدی کے حساب سے زکوٰۃ ادا کردے تو وہ قرآن مجید کی اس وعید کا مستحق نہیں رہتا۔

ان چند مثالوں سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالیٰ کے تفویض کردہ تشریعی اختیارات کو استعمال کرکے قرآن کے احکام و ہدایات اور اشارات و مضمرات کی کس طرح شرح و تفسیر فرمائی ہے۔ یہ چیز چونکہ خود قرآن میں دئیے ہوئے فرمانِ تفویض پر مبنی تھی اس لیے یہ قرآن سے الگ کوئی مستقل بالذات نہیں ہے بلکہ قرآن کے قانون ہی کا ایک حصہ ہے۔

***
Source: http://kitaben.urdulibrary.org/Pages/Sunnat.html
احادیث دراصل اقوال منسوب الرسول ہیں اور کوئی یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا حضورنے بھی یہی الفاظ کہے تھےکے ہیں

اگر واقعی حضور نے فرمادیا ہے تو کس میں جرات ہے کہ وہ یہ کہے کہ میں نہیں مانتا

اگر کوئی یہ کہے تو وہ مسلمان نہیں ہو سکتا

مسئلہ یہ ہے کہ

کیا واقعی حضور نے ایسا کہا ہے؟

کیا راوی بھول نہیں سکتا

کیا بھول جانے کے حوالے سے سجدہ سہو کے واقعات حضور صلم کے دور میں ملتے ہیں
اس کا مطلب ہے بھول جانا عام انسانی رویہ ہے 
جو لوگ حضور سے منسوب احادیث منسوب بھی کرتے ہیں وہ بھی یقین سے نہیں کہتے کہ یہ حضور کے الفاظ ہیں
اس کے علاوہ راوی پر بحث ہوتی ہے حدیث کی درجہ بندی ہوتی ہے 
حدیث کے معیار کا سب سے اہم معیار یہ ہے کہ وہ قرآن کی تعلیمات کے منافی نہ ہو جیسا کہ مسلم کی حدیث ہے
ایسی احادیث سر آنکھوں پر۔
احادیث کو پرکھنے کے لیے اسی لیے اسماٴ الرجال کا فن ایجاد کیا گیا
اسی طرح سنت کے مفہوم میں بہت غلط فہمی ہے
آپ کے ہر عمل، کام، خوردونوش، لباس، معاشرت اور روز مرہ کے امور کو سنت قرار ے کر اس پر عمل پیرا ہونا نہ يه ممکن ہے اور نہ قرآن یا رسول اللہ نے ہم سے یہ مطالبہ کیا ہے
وحی کو تو حضور باقاعدگی سے لکھواتے تھے اور کاتبین وحی بھی موجود تھے
اور وہ وحی قرآن کی صورت میں سب کے لیے تھی اور آج بھی ہے
جبکہ
اقوال رسول نہ لکھواۓ جاتے تھے نہ ہی کاتبین حدیث کا کوئی وجود تھا اگر کسی نے ازخود ہی کوئی بات آگے روایت کردی ہو یا نوٹ کرلی ہو تو وہ سب کے لیے نہ تو ہمہ گیر ہو سکتی ہے اور نہ ایسا کوئی اہتمام تھا اور اے دور میں سب لوگوں تک آپ کے تمام اقوال یا احادیث سے آگاہی کیسے ممکن ہے 


احادیث کا کو ئ ایسا مجموعہ نہیں جس پر سب متفق ھوں

امام ابوحنیفہ نے فقہی مسائل کے حدیث کا سھارا نہیں لیا اور وہ صرف اٹھارہ حدیثوں کےقائل تھے۔

ہمیں وضعی حدیثوں اور ضعیف حدیثوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے یہ نہیں کہ مجموعہ احادیث سے کوئی بھی پڑھ لی اور بیان کردی

احادیث میں متضاد اور ایسی ایسی روایات شامل کردی گئیں کہ بیان نہیں کی جاسکتیں

اس لیے ھم کہہ سکتے ہیں کہ یہ حضور سے غلط طور پر منسوب ہیں  حضور ایسا نہں کہہ سکتے

ایک طرف سنی بریلوی احادیث سے ہی ایصال ثواب، حاظر ناظر، حضور کا نور ہونا، شفاعت، زیارت قبور اور حاجت روی، پیری مریدی اور بہت سے دوسرے مسائل ثابت کرتے ہیں مگر اہل حدیث اور دیوبندی بھی احادیث سے ان کا رد کرتے ہیں
احادیث کی بنیاد پر ہی ہر فرقہ اپنے آپ کو سچا اور جنتی (ناجی ) قرار دیتا ہے جبکہ دوسروں کو جھوٹا ثابت کرتا ہے
خارجی، بدعتی، گستاخ رسول، کافر، مرتد اور نجانے کیا کیا قرار نہیں دیتا
یہی شیعہ سنی اختلاف میں ہے
لہذا قرآن سپریم ہے اور احادیث قرآن کے مفہوم کے مطابق ہوں وە رسول پاک نے فرمایا ہوگا اور حضور سے منسوب روایات قرآن حکیم کی واضع تعلیمات کےمنافی ہوں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضور نے ایسا نہیں فرمایا ہوگا
اور روایت کرنے والے سے بھول چوک ہوگئی ہو گی


علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے


حقیقت خرافات میں کھو گئی

یہ امت روایات میں کھو گئی
احادیث پیش کرنا بہت ہی نازک کام ہے لہذا حدیث پیش کرتے وقت بہت احتیاط سے کام لیں

بہت سی من گھڑت روایات احادیث نہیں ہیں انہیں آگے نہ پھیلائیں

جیسا کہ صحیح بخاری جلد 1 حدیث نمبر 109 میں ہے کہ اس کا ٹھکانہ جہنم ہے جس نے حضور کے ساتھ جھوٹ منسوب کیا.

یہ نہیں کہ مجموعہ احادیث سے کوئی بھی پڑھ لی اور بیان کردی

کتب احادیث میں متضاد اور ایسی ایسی روایات شامل ہو گئیں ہیں جن کے بارے میں ھم کہہ سکتے ہیں کہ یہ حضور سے غلط طور پر منسوب ہیں  حضور ایسا نہیں کہہ سکتے

حدیث پیش کرتے وقت مکمل احتیاط اور اطمینان کرلیں، روایت کی پوری تفصیل اور راویوں کے نام مکمل طور پر بیان کرنے چاہیں 

بہتر یہی ایسی احادیث پیش کریں جن کی روایت حضور پاک تک بلا شک و شبہ پہنچے یعنی مرفوع حدیث یا کم از کم موقوف حدیث ہو جس کی ورایت صحابہ اکرام تک پہنچے- متفق علیہ، صحیح اور حدیث قدسی پیش کرنا زیادہ بہتر ہے-
مسلم کی حدیث ہے حضور نے فرمایا ہے کہ جب بھی میری کوئی حدیث پیش کی جاۓ اسے قرآن پر پرکھ لیا جاۓ اگر وہ قرآن کی تعلیمات کے مطابق ہو تو ٹھیک ہے وگرنہ رہنے دیں- یہ بہت اہم اصول ہے-
چونکہ حدیث کا علم اور پیش کرنا نہایت نازک اور احتیاط کا کام ہے اس لیے عام عوام کو یہ کام نہیں کرنا چاہیے بلکہ یہ کام ان علماء پر چھوڑ دینا چاہیے جو علم حدیث پر دسترس رکھتے ہیں
البتہ قرآن حکیم کی آیات حوالے کےساتھ پیش کی جائیں تو یہ کار خیر ہوگا-


قرآن کے علاوہ کوئی ایسا مجموعہ نہیں جو شک وشبہ سے بالاتر ھو

قرآن ہی حجت اور حرف آخر ہے اور جس پر سب متفق ہیں

قرآن حکیم میں تیرہ مقامات پر یہ حضور کی زبان مبارک سے اعلان ہے کہ میں قرآن کی  پیروی کرتا ھوں

لہذا جب ہم بھی قرآن کی پیروی کریں گے تو حضور کی خود بخود پیروی ھو جائے گی

حضرت عمر نے حضور کے آخری ایام میں یہی کہا تھا

حسب نا کتاب اللہ
کہ ھمارے لیے کتاب کافی ہے
ہمارے لیے سپریم قرآن ہے اس میں غوروفکر ضروری ہے 


ہمیں چاہیے کہ

اپنے ذہن میں کسی غیر قرآنی تصور و خیال یا کسی بھی ایسے نظریہ جس سے قرآن نے منع کیا ہے اور اسے غلط کہا ہو مکمل طور پر بچیں


قرآن کو سمجھنا، اس پر عمل کرنا اور اس کی نشر و اشاعت کو اپنی زندگی کا مقصد قرار دیں

دکھی انسانیت کو سکھ پہنچانےکے لیے مصروف عمل رہیں
Allah knows the best
Read: Sunnah ki Ayeeni Haseyyat, Book by Syed Abulala Modudi.pdf 

جناب سٹڈی سرکل صاحب، آپکی معلومات میں اضافہ کرتا چلوں کہ شیعہ اس قرآن میں اول صدی سے اختلاف رکهتے ہیں اور مانتے ہیں کہ اصل قرآن امام غائب کے پاس عراق کے غار میں ہے.
آپ نے کہا کہ تمام فرقے مانتے ہوں. ذرا بتائیے کہ جو لوگ صحیح بخاری کو صحیح مانتے ہیں ان کے علاوہ کون ہے جو قرآن کو شک و شبہ سے بالا تر مانتا ہے؟ اول صدی سے دسویں صدی تک ایک مثال تو دیں.
دراصل آپ پرویزیوں کے اندهے مقلد ہیں جو کہ پرویزی لٹریچر سے متاثر ہو چکے ہیں. مسلمانوں کی آدهی بات مانتے ہیں، کہ قرآن صحیح ہے، باقی آدهی کا بغیر وجہ انکار کرتے ہیں، کہ صحیح بخاری و مسلم قرآن کے بعد صحیح ترین کتابیں ہیں.
ایک بات آپکو سو لوگوں نے بتائی ایک پانچ نے بتائی، اس سے یہ کیسے لازم آتا ہے کہ پانچ والی لازما غلط ہو گی؟کیا ہر وہ بات جس پر آپ کو یقین ہے وہ ایک جتنے راویوں نے بتائی ہے؟ اور ہر وہ بات جس پر آپ کو یقین ہے اس پر سبهی متفق ہیں؟
عقل کو استعمال کرنا چاہئے. اگر کوئی حدیث جس پر مسلمان عمل کر رہے ہیں اور وہ قرآن کے مخالف ہے تو پیش کریں. آدهے جملے، بغیر سیاق کی تشریح اور بلاوجہ کی غلط بیانی کا کچه فائدہ نہیں سوائے آخرت کی تباہی کے.
On Mar 12, 2014 9:25 PM, "Study circle" <s.studycircle@gmail.com> wrote:

سوال یہ ہے کہ
اسوہ حسنہ اور سنت کی کیا کوئی تعبیر یا کوئی مجموعہ تحریری صورت میں موجود ہے جو شک و شبہ سے بالا تر ہو، مستند ہو اور جس پر امت مسلمہ متفق ہو
جیسے امت قرآن حکیم پر متفق ہے 
کیا اسوہ حسنہ اور سنت رسول کی ایک متفقہ علیہ تعبیر موجود ہے جسے تمام فرقے اور مسالک سب بیک وقت مانتے ہوں 
اگر ہے تو اس كا كيا نام اور کہاں ہے  
On 7 mar 2014, at 08:30, Zafar Iqbal <zafariqbaldr@gmail.com> wrote:
سلام
تمام احادیث کی حیثیت ایک جیسی نہیں۔یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ چونکہ یہ روایات ہیں۔ اور ان کی صحت کے حوالہ سے لوگوں نے انتہائی عرق ریزی کی ہے جس کی مثال نہین ملتی۔اس عرق ریزی اور کھنگالنے کے نتیجے میں احادیث کی صحت کے حوالہ سے درجہ بندی کی گئی ہے۔درج بالا مختصر کمنٹس اسی تناظر میں ہیں اور وسیع ذخیرے میں سے چنیدہ الفاظ ر مشتمل ہیں۔ممکن ہے ان الطفاظ سے کوئی اس نتیجے پر پہنچے کہ ۔۔۔۔۔۔۔ نماز کے قریب مت جاؤ۔۔۔۔( بغیر اس اضافہ کے کہ ۔۔۔ جب تم نشے کی حالت میں ہو  ) 
سید ابوالاعلی ؒ  مودودی کے حدیث اور سنت کے حوالہ سے نطریہ کو سمجھنے کے لئے درج بالا سطور کی بجائے ان کی مفصل کتاب "سنت کی آئینی حیثیت" مددگار ہوگی۔
یہ کتاب دراصل ایک تحریری مکالمہ  پر مشتمل ہے جوتاریخی اور اہم حیثیت رکھتا ہے۔
امید ہے معلومات کی بنیاد پر نتائج اخذ کرنے والے خواتین وحضرات کے لئے یہ مفید ثابت ہو گی۔
Read: Sunnah ki Ayeeni Haseyyat, Book by Syed Abulala Modudi.pdf 
ظفر اقبال
2014-03-07 3:00 GMT+03:00 iqbal sheikh <iqbalsheikh@hotmail.com>
This discussion was received from following:
from: iqbal sheikh iqbalsheikh@hotmail.com
reply-to: iqbalsheikh@hotmail.com
to: "global-right-path@googlegroups.com" <global-right-path@googlegroups.com>
cc: xxxxxx xxxxxxx  xxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxx  xxxxxxxxxxxxxxxxx  xxxxxxxxxx   xxxxxxxxxxxxxxxxx
date: Fri, Mar 7, 2014 at 5:00 AM
subject: {GRP} کیاعلامہ اقبالؒ اور علامہ مولاناسید ابولاعلیٰ مودودیؒ منکرِ حدیث تھے؟
mailing list: global-right-path.googlegroups.com Filter messages from this mailing list
mailed-by: googlegroups.com
signed-by: googlegroups.com
http://global-right-path.net16.net/
Related:

~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, ReligionCultureSciencePeace
 A Project of 
Peace Forum Network
Peace Forum Network Mags
BooksArticles, BlogsMagazines,  VideosSocial Media
Overall 2 Million visits/hits

14.3.13

Islam - The Easy Way


One of the terms used by the Qur'an during the early Makkan period to describe Islam was Al-Yusraa, or 'The Easy Way'. This is simply because Islam was, and is the natural way of life. Indeed, whatever is natural for human beings should be easy for them in every way, hence cause them to gravitate towards it easily, and consequently bring harmony, peace and tranquillity to their lives. Since the Quran is the book upon which the Islamic way of life is built, then the Quran has to be easy to understand and follow-it is 'The Easy Way'.

This view that Islam is easy to understand and practice, is one which is derived from the primary sources of Islam. In the Quran, Allah comforts us by continuously reassuring us that He desires for us ease not hardship, despite the seemingly formidable trials and tribulations that we may sometimes face. He says:

'God desires ease for you, and desires not hardship' (2:185); 
'Truly with hardship comes ease' (94: 6); 
'God will assuredly appoint, after difficulty; easiness' (65:7); 
'Whoso fears God, God will appoint for him, of His command, easiness' (65:4); 
'We shall speak to him, of our command, easiness' (18:88); 
'God desires to lighten things for you, for the human being has been created weak' (94:28).

In addition to the Quran, the Hadith literature is also replete with references exhorting us to adopt a balanced and simple approach to life. Prophet Muhammad (saw) has advised us: 'This Deen or way of life is easy But if anyone overdoes it, it gets the better of him. So keep to the right course, approximate to perfection, rejoice, and ask for help in the mornings, the evenings, and some of the latter part of the night' (Bukhari). The Prophet (saw) has also praised those who adopt a moderate approach to 'ibadah or worship. Ibadab, he said, should be done with freshness of heart, not an exhausting routine carried out in spite of fatigue.

'Do those deeds which you can do easily, as Allah will not get tired [of giving rewards] till you get bored and tired [of performing good deeds! ... and the most beloved deed to Allah is the one which is done regularly even if it is little' (Bukhari).

Islam is not Complex

Islam is not a way of life that is complex or difficult. Rather it is the human being who practises Islam who often makes it difficult-and then, complexity overtakes him so that eventually he is unable to cope with even the simplest of tasks. That it is possible for every person to understand and practice Islam is assured by the following three principles:

Firstly, the basic beliefs contain no mystery and are therefore easy to comprehend. Every tenet in Islam is subject to analysis and inquiry. Moreover, Islam does not present stumbling blocks to the mind. Islam does not present concepts or ideas which the intellect cannot grasp. Even the simplest of minds can understand its basic beliefs. It is therefore not surprising that its beliefs are universal.

Secondly, the most important and stringent obligations ordained upon Muslims are easy to undertake. That is, the duties and obligations laid down by Allah have been graded. And, it is the wisdom of Allah that the greater the importance He has attached to any act, the easier it is for everyone to accomplish it. Thus, for example, the five daily Salat (Prayers) and Sawm (fasting) during the month of Ramadan are compulsory upon everyone, since they are within every-one 5 reach to accomplish. Zakat (almsgiving) and Hajj (pilgrimage), on the other hand, though fundamental pillars of Islam, are not compulsory upon everyone. If it were made compulsory upon everyone, then those who did not possess the financial means would be unable to carry out these duties. In such cases, it would not have been possible for everyone to practice Islam in all its facets. Therefore, these duties are obligatory only upon those who have the means to do so.

Thirdly, there are provisions for derogation when it is genuinely not possible for someone to fulfil an obligation. For instance, if a person is genuinely unable to stand up and pray, then he is permitted to sit down or even lie down and pray. Similarly, if there is no water available to perform the wudu or ablution before prayer, then one can make tayammum, which is a simple dry ablution performed by using clean earth or dust. Therefore, even when there appear to be difficulties, if one looks closely at the Shari'ah or Islamic legal code as a whole, one will find so many rules relating to derogation that enable one to practice Islam very easily-and this is the case regardless of the problem: political, economic or simply personal. Indeed, throughout the Quran various provisions have been made to ease things for travelers, for the sick, for pregnant or nursing women, for the old and for the poor, for on no soul does Allah place a burden greater than it can bear (7: 42) and 'He has chosen you, and has imposed no difficulties on you in religion' (22: 78).

Therefore, as long as one possesses the basic tools-a sound knowledge of what is stated in the Shari'ah regarding a particular matter and an awareness of the responsibility for ones own actions-a person may decide for himself when to derogate from the standard. Thus, although according to the Shari'ah it is haram (or unlawful) to eat pork, if someone is on the brink of starvation and the only food available is this pork, then one can decide for oneself whether and when to consume this haram meat in order to survive, and thereby derogate from the standard. Of course, this does not make the pork halal or lawful, but neither will one be punished for committing a haram or prohibited act, so long as it is necessary for one's essential well being as a Muslim.

The Path of Moderation

Moderation which leads to balance, is a fundamental and distinguishing feature of Islam. Allah tells us: 'We have made you a nation justly balanced' (2:143). Additionally, when the Quranic verse 'As to monasticism which they themselves invented, We did not prescribe any of it for them' (57: 27) was revealed, the Prophet Muhammad commented: 'Do not overburden yourselves, lest you perish. People [before you] overburdened themselves and perished. Their remains are found in hermitages and monasteries' (Musnad of Abu Ya'la). In other words, excesses may eventually develop into large problems and even become a threat to the well being and security of the Muslim community.

Indeed, the Prophet always resisted any tendency towards religious excessiveness. He once said to his close Companion Abdullah ibn 'Amr: 'Have I heard tight that you fast everyday and stand in prayer all night?' Abdullah replied, 'Yes, 0 Messenger of God: The Prophet said, 'Do not do that. Fast, as well as, eat and drink. Stand in prayer, as well as, sleep. This is because your body has a right upon you, your eyes have a right upon you, your wife has a right upon you, and your guest has a right upon you (Bukhari, Muslim). Abiding by the will of Allah requires that we seek and maintain a delicate balance between the various obligations that demand our attention; between our obligations to Allah, our obligations towards others and our obligations towards ourselves. Moreover, whenever the Prophet had to choose between two options, he always chose the easier, unless it was explicitly forbidden (Bukhari).

Maintaining a Joyful Disposition

Allah wants us to enjoy ourselves not only in the Hereafter but also in this world. Allah tells us in the Quran to pray for both 'the good in this world and the good in the Hereafter' (2:201).

Additionally the Quran speaks extensively about the enjoyment of life:

'O children of Adam! Wear your beautiful apparel at every time and place of prayer Eat and drink but waste not by excess, for Allah loves not wasters. Say: 'who has forbidden the beautiful gifts of Allah which He has produced for His servants and the things clean and pure which He has provided for sustenance' (7:30-301).

And again,

'O you who believe! Make not unlawful the good things Allah has made lawful to you. But commit no excess, for Allah does not like those given to excess. Eat of the things which Allah has provided you, lawful and good, but fear Allah, in whom you believe' (4: 86-88).

Surprising as it may seem to some of us, the Prophet not only accepted jokes; he also told them himself He was cheerful and possessed an easygoing character He was always smiling at his Companions and enjoyed their conversations. He also possessed a very keen sense of humor. But, his jokes were more of a philosophical nature, never inappropriate and always true. For example, once an old lady went to the Prophet and asked whether after her death she would enter Paradise or not. To this the Prophet replied, 'No old woman would enter heaven'. On hearing this, the woman was naturally very sad. 'Then, what is the reward for them?' she asked. The Prophet relieved her anxiety by saying, 'All old people will be made young before they enter Paradise.'

Relaxing your Mind

From the analysis above, it should be clear that Islam does not expect of any individual that he should spend all his leisure time in the mosque or at home and should listen to nothing but recitation of the Quran, or for that matter, be engaged in exclusively 'religious' pursuits. Rather, it recognizes that we are human beings, so that, as we eat and drink, and also need to relax and enjoy our-selves.

Relaxation is not at odds with piety and dignity. The Prophet prayed and engaged in worship more than anyone, but he also enjoyed good things, smiled and joked. Indeed, in his prayers he would beseech Allah for the good things of this world. Relaxing the mind also has the additional benefit of resting and rejuvenating the body so that when we eventually return to fulfil out various obligations, we will be more focused and ready All ibn Abu Talib once said: 'Minds get tired, so do bodies, so treat them with humor' and 'Refresh your minds from time to time, for a tired mind becomes blind'. Another Companion of the Prophet, Abu Darda said: 'I entertain my heart with something trivial in order to make it stronger in the service of the truth'.

As we have highlighted before, the approach of the Prophet to life's activities was always a balanced one. As devoted as he was in his personal worship, he was quick to indicate to his followers that the path of Islam is the way of moderation. Thus, when he heard that one of his attendants was continuously fasting during the day and spending the entire night in prayer, he remarked: 'In every deed [of action] there is a peak followed by lassitude. He who, in his lassitude, follows my Sunnah [the part of moderation] is on the right path, but he who, in his lassitude, follows another [guidance] has [erred and] gone astray [from the straight path Allah has revealed]' (al Bazzaz)

Making Islam Easy for Others

In sharing the message of Islam with people the Prophet was advised in the Quran: 'It is part of the mercy of Allah that you deal gently with them If you were severe or hardhearted, they would have broken away from you' (3: 159). Thus, when the Prophet sent his Companions Mu'adh and Abu Musa to teach Islam to the people of Yemen, he gave them the following advice: 'Facilitate [religious matters to people] and do not make [things] difficult. Obey each other and do not differ [amongst yourselves].' (Bukhari & Muslim).

On other occasions he also said: 'This Deen or way of life is easy'; 'Make it easy, don't make it difficult; 'Let people rejoice in being Muslims and not run away from it' and 'Cheerfulness towards other people, even a smile is a sadaqah or charity to be rewarded by Allah'.

Moreover, a person-in seeking to purify himself and further develop his God-consciousness-may choose to place greater demands of worship upon himself, but this in no way means that he has the right to impose or force the same on others, and thereby, unconsciously alienate them from Islam. The Prophet exemplified this in his own life because he used to prolong the Salat whenever he was alone, but he would shorten it whenever he led others in Salah. Regarding this he said: 'Whoever among you leads the people in Salat, he should shorten it, for amongst them are the weak, the old, and the one who has business to attend to. And if anyone among you performs Salat alone, he may then prolong [Salat] as much as he wishes' (Bukhari).

Similarly, 'Umar Ibn al Khattab emphasized that creating unnecessary difficulties for people may well have the effect of leading them away from Allah, rather than making them better Muslims. He advised: 'Do not make Allah hateful to His servants by leading people in Salat and so prolonging it that they come to hate what they are doing'

Ease versus Hardship

To say, however, that Islam is easy and not 'difficult', is not to imply that Muslims will not face 'hardship'-and here the two terms must be distinguished. Indeed, although Islam is easy to understand and practice, the whole purpose of the trial is to make manifest the degree to which an individual is steadfast (and hence sincere) in his submission to Allah- and this is precisely what is indicated by the Quranic verse: 'And We will most certainly test you with something of fear and hunger, and loss of possessions and lives and crops' (2:155).

Notwithstanding these trials however, we can find ease in this world and the next. But, this will be so only if we are firm in our faith in Allah and follow the course prescribed by Islam, as He Himself has declared: 'But give good news to those who are patient, who, when a calamity strikes them, say: 'Indeed we belong to God and indeed to Him we shall be returning: They are those on whom are blessings from their Sustainer, and mercy-and those, they are the rightly-guided. (2: 155-157).