میلاد‘‘ کے معنی ہیں: ''پیدائش کا وقت‘‘ اور ''مَولِد‘‘ کے معنی ہیں: ''پیدائش کی جگہ یا وقت‘‘ ، دراصل یہ ظرف کا صیغہ ہے اور ظرف زمانی بھی ہوتا ہے اور مکانی بھی، یعنی کسی واقعے کے رونما ہونے کا زمانہ یا مقام، یعنی زمانۂ ولادت یا مقامِ ولادت۔ میلادالنبیﷺ کے معنی ہیں: ''نبیِ کریمﷺکی ولادتِ باسعادت کے احوال بیان کرنا‘‘۔ حدیثِ پاک کی مستند کتاب ''سننِ ترمذی‘‘ میں ہے: ''بَابُ مَاجَائَ فِیْ مِیْلَادِالنَّبِیِّﷺ‘‘، ''یعنی میلادالنبیﷺ کا بیان‘‘۔ اس باب کے تحت امام ابو عیسیٰ ترمذی اپنی سند کے ساتھ قیس بن مَخرمہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: میں اور رسول اللہﷺ ''عامُ الفیل‘‘ میں پیدا ہوئے اور حضرت عثمانؓ نے قُباث بن اَشیَم سے پوچھا: عمر میں آپ بڑے ہیں یا رسول اللہﷺ؟، تو انہوں نے کہا: (مرتبے میں تو یقینا) رسول اللہﷺ مجھ سے بڑے ہیں؛ البتہ میری ولادت اُن سے پہلے ہوئی۔ رسول کریمﷺ عامُ الفیل میں پیدا ہوئے (سنن ترمذی: 3619)‘‘۔ اس حدیث میں رسول اللہﷺ کے زمانۂ ولادت بیان کرنے کو ''میلادالنبیﷺ‘‘ کا عنوان دیا گیا۔
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''(حضرت یحییٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا) اور ان پر سلام ہو جس دن وہ پیدا ہوئے اور جس دن ان کی وفات ہو گی اور جس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں گے، (مریم:15)‘‘۔ ''(حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں) اور مجھ پر سلام ہو جس دن میں پیدا کیا گیا اور جس دن میری وفات ہو گی اور جس دن میں (دوبارہ) زندہ اٹھایا جاؤں گا، (مریم:33)‘‘۔ ان دونوں آیاتِ مبارَکہ سے معلوم ہوا کہ انبیائِ کرام ؑکی ولادت کے دن اُن پر سلام بھیجنا سنتِ الٰہیہ ہے اور خود سُنّتِ انبیاء ؑبھی ہے۔ اور یہ مسلَّمہ اصول ہے کہ سابق انبیائِ کرام ؑکے حوالے سے جو امور قرآن مجید میں بطورِ فضیلت بیان فرمائے گئے ہیں اور اُن کی ممانعت نہیں فرمائی گئی، وہ ہماری شریعت میں بھی جائز ہیں۔
مسلمانوں کے میلادالنبیﷺ منانے کا مقصد اس کائنات میں رسول اللہﷺ کی تشریف آوری پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تشکُّر کا اظہار کرنا، رسول اللہﷺ کی ولادتِ باسعادت کے احوال، آپ کے نسبِ پاک اور فضائل کا بیان کرنا ہے اور یہ خود رسول اللہﷺ سے ثابت ہے: ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ''رسول اللہﷺ سے سوموار کے روزے کی بابت پوچھا گیا، آپﷺ نے فرمایا: اس دن میری ولادت ہوئی اور اسی دن میری بعثت (اعلانِ نبوت) ہوئی یا مجھ پر (پہلی بار) وحی نازل ہوئی، (صحیح مسلم:2745)‘‘۔ اس حدیثِ پاک سے معلوم ہوا کہ رسول کریمﷺ اپنی ولادتِ باسعادت کے شکرانے کے طور پر سوموار کے دن نفلی روزہ رکھا کرتے تھے اور ولادتِ مصطفیﷺ کا تشکُّر خود رسول اللہﷺ کی سنت ہے۔ اس حدیث کی شرح میں ملاّ علی قاری لکھتے ہیں: ''اس حدیث میں اس بات پر دلالت ہے کہ جس جگہ اور جس زمانے میں کوئی مبارک و مسعود واقعہ ہوا ہو، تو اس کی وجہ سے اس زمان و مکان کو شرَف و برکت مل جاتی ہے، (مرقاۃ المفاتیح، جلد:4، ص:475)‘‘۔ سنن ترمذی: 746 اور سننِ ابوداؤد: 2452 اور سننِ نسائی: 2419 میں بھی نبیِ کریمﷺ کے سوموار کے نفلی روزے کا بیان ہے۔ اسی طرح رسول اللہﷺ سے اپنے نسبِ پاک کا بیان بھی ثابت ہے۔ ''واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سنا: رسول اللہﷺ فرما رہے تھے: اللہ تعالیٰ نے اولادِ اسماعیل میں سے کِنانہ کو چن لیا اور کنانہ کی اولاد سے قریش کو چن لیا اور قریش میں سے بنو ہاشم کو چن لیا اور بنو ہاشم میں سے مجھے چن لیا، (صحیح مسلم:2276)‘‘۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے اپنے والدِ ماجد حضرت عبداللہ سے بائیسویں پشت پر حضرت عدنان تک اپنا نسب بیان فرمایا اور فرمایا: جب بھی لوگوں کے دو گروہ ہوئے، اللہ تعالیٰ نے مجھے ان میں سے بہتر گروہ میں رکھا، میں (جائز) ماں باپ سے پیدا کیا گیا ہوں، مجھے زمانۂ جاہلیت کی
بدکاری سے کوئی چیز نہیں پہنچی۔ میں نکاح سے پیدا کیا گیا ہوں، بدکاری سے پیدا نہیں کیا گیا۔ حضرت آدم و حوا ؑسے لے کر نسب کی پاکدامنی کا یہ سلسلہ میرے والدین تک قائم رہا، میں بطورِ شخصیت کے تم سب سے بہتر ہوں اور بطور باپ کے تم سب سے بہتر ہوں، (دلائل النبوۃ، جلد:1،ص:174-175)‘‘۔
آپﷺ سے روایت کردہ احادیث کا مفہوم یہ ہے کہ آپ کا نورِ نبوت اور نسب حضرت آدم و حوا علیہماالسلام سے لے کر حضرت عبداللہ و آمنہ تک مسلسل پاک پشتوں سے پاکیزہ ارحام میں منتقل ہوتا رہا اور آپ کے تمام آباء اور اُمَّہات میں عہدِ اسلام کے طریقۂ نکاح کے مطابق رشتۂ ازدواج قائم ہوا، لہٰذا آپ کا پورا سلسلۂ نسب طیب و طاہر اور کائنات میں سب سے اعلیٰ ہے، بیہقی کی ''دلائل النبوۃ ‘‘ اور محمد بن یوسف صالحی کی ''سُبُلُ الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیرالعباد‘‘ اور دیگر کتبِ سیرت میں یہ احادیث موجود ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہﷺ اس کائنات میں اﷲ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہیں اور اس کی بے شمار نعمتوں میں سے واحد نعمت ہے کہ جس کا اس نے بطورِ خاص اہلِ ایمان پر احسان بھی جتلایا ہے، ارشاد ہوا: ''یقینا اﷲ تعالیٰ نے اہلِ ایمان پر احسان فرمایا کہ ان کے درمیان انہی میں سے رسولِ عظیم کو مبعوث فرمایا، جو ان پر آیاتِ الٰہی کی تلاوت کرتے ہیں اور ان کے (قلوب و اذہان) کا تزکیہ کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں، اگرچہ وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے،(آل عمران:164)‘‘۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ بھی حکم ہے: ''اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو، (الضحیٰ:11)‘‘۔
قرآنِ مجید میں عید کا ذکر: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''عیسیٰ ابن مریم نے دعا کی: اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے کھانے کا خوان نازل فرما، (تاکہ) وہ دن ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لئے عید ہو جائے اور تیری طرف سے (قدرت کی) نشانی ہو جائے اور ہمیں رزق عطا فرما اور تو سب سے بہتر رزق عطا فرمانے والا ہے (المائدہ:114)‘‘۔ اس آیتِ مبارَکہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ''خوانِ نعمت‘‘ کے نزول کے دن کو یومِ عید قرار دیا اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ان کی اس دعا کا ذکر فرمایا۔ پس معلوم ہوا کہ نزولِ نعمت یا حصولِ نعمت کے موقع کو عید سے تعبیر کر سکتے ہیں؛ چنانچہ سعودی عرب میں ملک عبدالعزیز کی بادشاہت کے قیام کے دن کو ''عیدُالوَطَنی‘‘ کہا جاتا ہے اور سعودی عرب کے علماء سمیت کسی نے بھی اسے بدعت سے تعبیر نہیں کیا۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ وہ تو دنیاوی معاملہ ہے، جبکہ میلادالنبیﷺ کو دین کا شِعار سمجھ کر کیا جاتا ہے، اس لئے اس کی مخالفت کی جاتی ہے۔ ہم شروع میں بیان کر آئے ہیں کہ رسول اللہﷺ اپنی ولادتِ مبارَکہ اور بعثت کا دن تشکر کا روزہ رکھ کر مناتے تھے اور رسول اﷲﷺ کا فعل شِعارِ دین ہی قرار پائے گا، کیونکہ نعمت کا تعلق بھی دین سے ہے۔ اسی طرح حدیثِ پاک میں ہے: ''جب نبیﷺ مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہود یومِ عاشورا کا روزہ رکھتے ہیں، تو آپﷺ نے اس کی وجہ پوچھی؟، صحابہ نے عرض کی! یہ نیک دن ہے، اس دن اللہ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمنوںسے نجات عطا فرمائی تھی، تو موسیٰ علیہ السلام نے (اس کے شکرانے کے طور پر ) روزہ رکھا۔ (نبی کریمﷺ نے) فرمایا: میرا موسیٰ سے تعلق تمہاری بہ نسبت زیادہ ہے، پس آپ نے خود بھی روزہ رکھا اور (صحابۂ کرام کو بھی) روزہ رکھنے کا حکم دیا، (صحیح بخاری: 2004)‘‘۔ دوسری احادیثِ مبارَکہ میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے یہود کی مشابہت سے بچنے کے لئے صحابۂ کرام کو دس محرم کے ساتھ ایک دن پہلے (یعنی نو محرم) یا ایک دن بعد (یعنی گیارہ محرم) کو ملا کر دو دن کا نفلی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا، اس سے یہ منشائِ رسالت معلوم ہوا کہ اگر کوئی کام فی نفسہٖ شریعت کی نظر میں پسندیدہ ہے اور کسی جہت سے اس میں مشابہت کا عنصر پایا جاتا ہے، تو محض مشابہت کی وجہ سے اس پسندیدہ کام کو ترک نہیں کیا جائے گا بلکہ مشابَہتِ صُوری سے بچنے کے لئے کوئی بہتر حکمتِ عملی اختیار کی جائے گی۔
شیخ الحدیث علامہ غلام رسول سعیدی نے شرح صحیح مسلم ، جلد :3، ص:169تا190میں میلادالنبیﷺکے موضوع پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔انہوںنے احناف کے مسلَّمہ اکابر علامہ ابن عابدین شامی کی ''شَرحُ الْمَوْلِد لِابْنِ حَجربحوالہ: جواہر البحار، جلد:3،ص:340‘‘ اورملاّ علی قاری کی ''اَلْمَوْلِدُالرَّوِی فیِ الْمَوْلدِالنَّبَوِی،ص:7-8‘‘ کے حوالے سے ثابت کیا کہ یہ اکابرِ اُمّت بھی میلادالنبی ﷺ کے جواز کے قائل تھے۔
برصغیر کی مسلّمہ دینی وعلمی شخصیت شاہ ولی اﷲ محدّث دہلوی ''اَلدُّ رُالثَّمِیْن فِیْ مُبَشَّرَاۃِ النَّبِیِ الْاَمِیْن‘میں لکھتے ہیں: ''میلاد کا اہتمام میرے والدِ گرامی(شاہ عبدالرحیم ) فرماتے تھے۔ میں یومِ میلاد کے موقع پر کھانا پکوایا کرتا تھا۔ اتفاق سے ایک سال کوئی چیز میسر نہ آسکی کہ کھاناپکواؤں ، صرف بھنے ہوئے چنے موجود تھے؛ چنانچہ یہی چنے میں نے لوگوں میں تقسیم کیے۔خواب میں دیکھاکہ آنحضرتﷺتشریف فرماہیں،یہی چنے آپ کے سامنے رکھے ہیں اورآپ نہایت خوش اورمسروردکھائی دے رہے ہیں (رسائلِ شاہ ولی اﷲ دہلوی:254)‘‘۔یعنی میلاد کایہ اہتمام رسول اللہﷺ کی نظرمیں محبوب تھا۔
شیخ عبداللہ بن محمد بن عبدالوہاب نجدی'' مختصر سیرۃ الرسول ‘‘ میں لکھتے ہیں:''ثُوَیبہ ابولہب کی باندی تھی ، جب نبیِ کریمﷺ کی ولادت ہوئی،تواس نے اپنے آقا کو بھتیجے کی ولادت کی خوشخبری سنائی،اس خوشی میں ابولہب نے انگلی کے اشارے سے اُسے آزادکردیا، بعدمیں ثُوَیبہ نے آپ ﷺکو دودھ بھی پلایا۔ ابولہب کے انتقال کے بعد کسی نے اسے خواب میں دیکھا اور پوچھاکہ تمہارے ساتھ کیاسلوک ہوا؟اس نے بتایا: تم سے جدا ہونے کے بعد عذاب میں مبتلاہوں، مگرہرپیرکے دن انگلی سے ٹھنڈک ملتی ہے۔پس مقامِ غور ہے کہ جب ابولہب جیسے دشمنِ رسول کافرکو ولادتِ محمد بن عبداللہ کی خوشی منانے پر جہنم میں راحت مل سکتی ہے تو ایک مسلمان کومحمد رّسول اللہﷺکی ولادت کی خوشی منانے پر بے پایاں اجرکیوں نہیں ملے گا؟یہ عبارت کاخلاصہ ہے‘‘۔ امام محمد بن اسماعیل بخاری نے بھی قدرے اختصار کے ساتھ اسی واقعہ کو بیان کیا ہے(صحیح بخاری:5101)‘‘۔
علامہ سعیدی نے علمائے دیوبند کے شیخِ طریقت حاجی امداداللہ مہاجر مکی کا یہ قول نقل کیا:''اور مَشرَب فقیر کا یہ ہے کہ محفلِ مَولِد میں شریک ہوتاہوں،بلکہ ذریعۂ برکات سمجھ کرہرسال منعقد کرتاہے اورقیام میں لطف ولذت پاتا ہوں، (فیصلہ ہفت مسئلہ:05)‘‘۔ وہ مزید لکھتے ہیں: ''ہمارے علماء مَولِد شریف میں بہت تنازعہ کرتے ہیں،تاہم علماء جواز کی طرف بھی گئے ہیں،جب صورت جواز کی موجود ہے،پھر کیوں ایسا تشدُّد کرتے ہیں اور ہمارے واسطے اِتَّباعِ حرمین کافی ہے،البتہ وقت قیام کے، اعتقاد تولُّد کا نہ کرنا چاہئے،اگر احتمالِ تشریف آوری کیا جاوے ، مُضائقہ(حرج)نہیں،کیونکہ عالم خَلق مقید بہ زمان ومکان ہے ،لیکن عالَم اَمر دونوں سے پاک ہے ، پس قدم رنجا فرمانا ذاتِ بابرکات کا بعید نہیں‘‘۔وہ مزید لکھتے ہیں: ''مولِد شریف تمام اہلِ حرمین کرتے ہیں، اسی قدر ہمارے واسطے حجت کافی ہے اور حضرتِ رسالت پناہ کا ذکر کیسے مذموم ہوسکتاہے؟ البتہ جو زیادتیاں لوگوں نے اختراع کی ہیں ، نہ چاہئیں اور قیام کے بارے میں کچھ نہیں کہتا، ہاں مجھ کو ایک کیفیت، قیام میں حاصل ہوتی ہے‘‘۔ وہ مزید لکھتے ہیں: ''اگر کسی عمل میںغیر مشروع عوارض (خارجی امور) لاحق ہوں ، تو اُن عوارض کو دور کرنا چاہئے، نہ یہ کہ اصل عمل سے انکار کردیا جائے،ایسے امور سے انکار کرنا خیرِ کثیر سے بازرکھنا ہے، جیسے قیام ِمولِد شریف،اگر بوجہ آنے نام آنحضرت کے کوئی شخص تعظیماً قیام کرے تو اس میں کیا خرابی ہے؟ جب کوئی آتاہے تولوگ اس کی تعظیم کے واسطے کھڑے ہوجاتے ہیں،اگر سردارِ عالَم وعالمیاں(رُوحی فداہُ)کے اسمِ گرامی کی تعظیم کی گئی تو کیا گناہ ہوا (شمائمِ امدادیہ:47,50,68)‘‘۔
علمائے دیوبند کے مُسَلمَّہ پیشوا علامہ اشرف علی تھانوی نے اس آخری جملے پر حاشیے میں لکھا ہے: '' البتہ اصرار کرنا اور تارکین سے نفرت کرنازیادتی ہے،(امدادالمشتاق:68)‘‘۔اس عبارت سے ہمیں اتفاق ہے ، کیونکہ کسی مستحب یا پسندیدہ امر کو ترک کرنے پر ملامت کرنا اسے واجب قرار دینا ہے اور یہ درست نہیں ہے ۔ اس حاشیے پر علامہ غلام رسول سعیدی نے یہ اضافہ کیاہے: ''اور میں کہتا ہوں کہ اس سے بھی بڑی زیادتی یہ ہے کہ محفلِ میلاد کو ''بدعتِ سَیِّئَہ‘‘ قرار دیا جائے اور میلاد شریف کرنے والوں سے نفرت کی جائے اور انہیں اہلِ بدعت کے نام سے پکارا جائے‘‘۔
ہمارا مَوقِف بھی یہی ہے کہ فی نفسہٖ میلادالنبیﷺ جائزبلکہ مستحسن ہے ، لیکن میلادالنبی کے عنوان سے قائم مجالس اور جلوسوں کو ہر قسم کی بدعات، مُنکَرات اور خرافات سے پاک ہوناچاہئے تاکہ چند لوگوں کی بے اعتدالیوں کی بنا پر ایک مستحسن امر کے خلاف منفی پروپیگنڈے کا جواز نہ مل سکے۔
مشہور اہلحدیث عالِم علامہ وحیدالزمان لکھتے ہیں :''اِس حدیث (یعنی رسول اللہ کا پیرکا روزہ رکھنے) سے ایک جماعتِ علماء نے آپ کی ولادت کی خوشی یعنی مجلسِ میلاد کرنے کا جوازثابت کیاہے۔اورحق یہ ہے کہ اگراس مجلس میں آپ کی ولادت کے مقاصداوردنیاکی رہنمائی کے لئے آپ کی ضرورت اورامورِرسالت کی حقیقت کوبالکل صحیح طریقہ پر اس لئے بیان کیاجائے کہ لوگوں میں اِس حقیقت کاچرچا ہواورسننے والے یہ ارادہ کرکے سُنیں کہ ہم کو اپنی زندگیاں اُسوۂ رسول کے مطابق گزارنا ہیںاور ایسی مجالس میں کوئی بدعت نہ ہو،تومبارک ہیں ایسی مجلسیں، اور حق کے طالب ہیں ان میں حصہ لینے والے، بہرحال یہ ضرور ہے کہ یہ مجلسیں عہدِ صحابہ میں نہ تھیں(لغات الحدیث، جلد:3،ص:119)‘‘۔
یہ بات درست ہے کہ موجودہ ہیئت پر جو مجالسِ میلادالنبیﷺ منعقد ہوتی ہیں یا جلوس کا شِعار ہے ، یہ جدید دور کی معروف اَقدار ہیں اور دین کے بہت سے شعبوں میں ہم نے دورِ جدید کے شِعار اور اَقدار کو اپنایا ہے، مثلاً : مُصحفِ مبارک میں سورتوں کے نام، آیات کی علامات، اِعراب لگاناوغیرہ۔ کتبِ احادیث بھی دوسری صدی ہجری میں یااس کے بعد مرتب ہوئیں ۔ قرآن وحدیث کو سمجھنے کے لئے تمام معاون علوم بعد میں ایجاد اور مُدَوَّن ہوئے ،عالی شان مساجدا ور مدارس قائم ہوئے ، دینی لٹریچر کی جدید اندازمیں نشرواشاعت کا انتظام ہوا۔اورکسی نظریے سے وابستگی کے اظہار کے لئے یا کسی غلط بات کے استرداد اوراس پر احتجاج ریکارڈ کرانے کے لئے جلوس نکالنے کی روش قائم ہوئی ۔ تقریباً تمام مکاتبِ فکر نے دینی مقاصد کے لئے جلوس نکالے، مثلاً: شوکتِ اسلام ، نفاذِ شریعت ، ناموسِ رسالت اور عظمتِ صحابہ وغیرہ کے نام پر جلوس نکالے جاتے رہے ہیں اور یہ تمام سرگرمیاں دین اور مقاصدِدین سے تعلق رکھتی ہیں اور انہیں اس دورمیں قبولِ عام مل چکا ہے ۔ اسی طرح دینی جماعتوں کاقیام، تبلیغی اجتماعات کاانعقاد، افتتاحِ بخاری یا ختمِ بخاری کی تقریبات ، مدارس کے سالانہ جلسے یا پچاس سالہ اورڈیڑھ سوسالہ جشن، سیرت النبی ﷺکے جلسوںکاانعقاد، انٹرنیٹ کادرسِ قرآن اوردین کے ابلاغ کے لئے استعمال وغیرہ ۔ مقامِ حیرت ہے کہ اس طرح کی تمام سرگرمیوں پر کبھی کسی نے کوئی فتویٰ صادر نہیں کیا، توصرف محافل وجلوسِ میلادالنبی ﷺ کو ہدفِ تنقید بنانا یا بدعت قرار دینا انتہائی زیادتی ہے۔
میلادالنبیﷺکو بدعت قرار دینے والوں کا کام آسان ہے کہ وہ فتویٰ دے کر اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں، لیکن میرا درد اِس سے سوا ہے۔میری خواہش ہے کہ ان مجالس کو دینی تعلیم وتربیت کا مؤثر ذریعہ بنانا چاہئے اور محبتِ رسول اللہﷺکاثمر اِطاعت واِتباعِ نبوی کی صورت میں ظاہر ہوناچاہئے۔پیشہ وَر واعظین، موضوع روایات بیان کرکے لوگوں کی عقیدت کو اپنی دنیاسنوارنے کے لئے ابھارتے ہیں اوراِسے روحانی سرور کا ذریعہ بنالیاگیا ہے۔خیر کاکام اِس انداز سے ہوناچاہئے کہ اُس کے مثبت نتائج برآمد ہوں، لاؤڈ اسپیکر کا استعمال بقدرِضرورت اور مناسب وقت تک ہو،یہ نہ ہو کہ لاؤڈ اسپیکر کے شور سے لوگوں میں بیزاری اور نفرت پیداکی جائے،کسی اور کی غلط رَوِش کو اپنے لئے جواز نہ بنایاجائے۔چراغاں کے لئے بجلی کا استعمال قانون کے دائرے میں ہونا چاہئے ،ناجائز طریقے اختیار کرکے اُسے سعادت یا باعثِ اجرسمجھنا غیر شرعی فعل ہے،اﷲتعالیٰ فرماتاہے : ''اے ایمان والو ! (اللہ کی راہ میں ) اپنی پاکیزہ کمائی میں سے او ر اُن چیزوں میں سے خرچ کروجوہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالی ہیں،اور ناقص چیزیں خرچ کرنے کا اِرادہ نہ کرو ،جن کو تم خود بھی چشم پوشی کئے بغیر(خوشدلی سے )نہ لو(بقرہ:267)‘‘۔ مالِ حرام کوحرام سمجھتے ہوئے اﷲکی راہ میں صدقہ کرنااوراس پراجرکی امیدکرناایمان کے منافی ہے۔
مفتی منیب ا لرحمان
http://dunya.com.pk/index.php/author/mufti-muneeb-ul-rehman/2015-01-03/9724/81049933#tab2
Read More:
http://peace-forum.blogspot.com/2013/01/celeberation-of-birth-of-prophet.html?m=0
No comments:
Post a Comment